تحریک انصاف کے سربراہ محترم عمران خان کی اقتدار سنبھالنے کے بعد 18اگست کی تقریر بلا شبہ بڑی متاثر کن تھی۔اس کا سب سے بڑا سبب تو یہ تھا کہ یہ کسی اسپیچ رائٹر کی لکھی ہوئی نہ تھی ۔ عرف ِ عام میں یہ extemporeہی لگ رہی تھی ۔ چند لکھے ہوئے پوائنٹ ایک صفحے پر ضرور تھے مگر واقعی لگا کہ 22سال تک دھرنوں اور احتجاج کی سیاست کرنے والے وزارت عظمیٰ کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد اپنے کروڑوں ووٹروں سے خا ن صاحب دل سے باتیں کر رہے ہیں۔یہ باتیں عوام کی اکثریت کے دل میں اتریں بھی۔اسی لئے اپوزیشن کی جانب سے کی جانے والی تنقید پر عام لوگوں نے کوئی زیادہ توجہ نہ دی۔پی پی ،ن لیگ کے قائدین خاص طور پر ہمارے مولانا فضل الرحما ن کے وزیر اعظم عمران خان کی پہلی تقریر پر تبصرے اور حملے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے محاورے پر ہی پورے اتر ے۔میں اس وقت محترم وزیر اعظم کی پہلی تقریر کے ان دس نکات پر نہیں جاؤں گا جنہیں خوشنما،پرکشش اعدادو شمار سے سجا کر یہ یقین دلایا گیا تھا کہ آئندہ سو دِن میں معیشت کا پہیہ الٹی سمت چلنا شروع ہوجائے گا۔یعنی اگر وطن عزیز پر 36ہزار ارب روپے کے قرضے ہیں تو ان میں بڑھاوا نہیںکمی آئے گی۔تجارتی خسارہ جو خطرناک حدود کو چھو رہا ہے ،وہ گھٹا نہیں، تو بڑھے گا بھی نہیں۔ڈالر کا جن بوتل سے نکل کر جو 130روپے کو چھونے جارہا ہے، اس سے زیادہ اوپر نہیں جائے گا۔ بجلی، گیس، پٹرول جیسی بنیادی سہولتوں کی قیمت میں بھی کمی لائی جائے گی۔زر مبادلہ کے گرتے ذخائر کو سہارا دیا جائے ۔اور ہاں،پہلے دس دنوں میں ہی سعودی عرب اور برادر ملک چین سے اتنے جھولی بھر ڈالر ملیں گے کہ آئی ایم ایف کے پاس تو جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔معاشیات کا ماہر تو کیا،طالب علم بھی نہیں ہوں۔اس لئے مالی اعداد شمار کے منحوس چکر میں جانے سے ذرا گریز ہی کروں گا۔مگر معذرت کیساتھ ان سو دنوں کے ابتدائی دس دنوں میں سب سے بڑی کلہاڑی تو محترم خان صاحب نے اپنی پارٹی پر ہی ماری ۔25جولائی کے انتخاب سے ہفتہ بھر پہلے محترم خان صاحب نے کراچی ایئر پورٹ پر مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے بڑے پر زور دعوے سے کہا تھا ’’الیکشن میں ہم کتنی بڑی کامیابی حاصل کریں گے۔۔۔اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ میں تحریک انصاف کو ملک کی سب سے منظم اور مضبوط پارٹی بنانے میں کامیاب ہوگیا ہوں۔‘‘جب محترم خان صاحب یہ دعویٰ کررہے تھے تو یقینا وہ یہ تاثر دینا چاہ رہے تھے کہ حکومت میں جو وزیر ،مشیر ،وزرائے اعلیٰ،گورنر لئے جائیں گے،اُس سے پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ متاثر نہیں ہوگا۔ ہمارے محترم وزیر اعظم عمران خان پہلی غلطی تو وہیں کر بیٹھے، جو 1988ء میں پیپلز پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو نے کی تھی۔اُس وقت قومی اسمبلی کے اراکین کی تعداد 205تھی۔سادہ اکثریت سے 123ارکان درکار تھے۔ جبکہ پیپلزپارٹی کے سارے ملک سے 194ارکان اسمبلی میں منتخب ہوئے تھے۔یوں سارے پتّے اس وقت کے طاقت ور بیورو کریٹ صدر غلام اسحا ق خان کے ہاتھ میں تھے۔غلام اسحاق خان پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے اُس وقت سب سے بڑے سرخیل تھے۔اسٹیبلشمنٹ محترمہ بے نظیر بھٹوکی پاپولر عوامی سپورٹ کے سبب انہیں اقتدار منتقل کرنے پر مجبورتھی۔پھر محترمہ بے نظیر بھٹو جیالوں کے اقتدار میں آنے کی خواہش کے سبب ہر صورت میں اقتدار لینے پر مجبور ہو گئی تھیں۔وہ اقتدار جس میں اختیارات کی ساری کنجیاںمحترم صدر غلام اسحاق خان کے پاس تھیں۔اور وہ یہ کیوں نہ رکھتے ۔کہ اقتدار کا منبع دو بڑے ستون ،عدلیہ اور جی ایچ کیو ان کے دائیں بائیں کھڑے تھے۔آئینی طور پر صدر غلام اسحاق خان کو دو ہفتے میں وزارت عظمیٰ کے لیے اکثریتی پارٹی یعنی پاکستان پیپلز پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کو دعوت دینی تھی۔مگر محترم صدر نے بی بی بے نظیر بھٹو کو چھ ہفتے کے بعد ایوان صدر آنے کی دعوت دی۔اور وہ بھی سندھ میں ابھرنے والی سب سے بڑی شہری جماعت ایم کیو ایم کی تیرہ بیساکھیوں پر چل کر۔صدر ِ مملکت کا عہدہ تو خیر ان کا آئینی حق تھا ۔مگر اسٹیبلشمنٹ کے محبوب صاحبزادہ یعقوب علی خان کو بھی انہیں وزیر خارجہ کی حیثیت سے قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔تصدیق سے نہیں کہہ سکتا مگر محترمہ کے وزارت عظمیٰ کا تاج پہنتے ہی یہ softپیغام بھی دیا گیا کہ وہ پہلی فرصت میں فوج کو تمغہ ٔ جمہوریت سے نوازیں کہ ا س سے وہ داغ دھل سکے جو ان کے والد محترم کی پھانسی پر افواج ِ پاکستان پر لگایا جارہا تھا۔بصد احترام اور یہ اس لئے کہ اپنی شہادت کے بعد یوں بھی محترمہ بے نظیر بھٹو اس مقام پر ہیں کہ انہیں اس طرح موضوعِ بحث میں لانا اچھا نہیں لگ رہا۔مگر اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ محترم وزیر اعظم عمران خان کو یہ یاد دلایا جائے کہ آپ کے ساتھ بھی تین دہائی بعد وہی ہاتھ ہوتا نظر آرہا ہے ،جس میں کسی بھی حکومت کی سب سے بڑی طاقت یعنی جب پارٹی باجوں والی گلی سے نکل جاتی ہے تو وزارت عظمیٰ کی کرسی اُن کے ووٹروں ،حامیوں اور تنظیم پر نہیں ،اسٹیبلشمنٹ کی مرہون منت رہ جاتی ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے اقتدار میں آتے ہی وہ پارٹی زیرزمین چلی گئی جن کے لاکھوں کارکنوں نے برسوں جیلیں کاٹیں۔ ہزاروں نے کوڑوں کی بہیمانہ سزائیں برداشت کیں اور درجنوں پھانسی چڑھ گئے۔محترم خان صاحب ،آپ کی منظم، مضبوط تحریک انصاف بھی آپ کے ایوان وزیر اعظم میں جاتے ہی بنی گالہ سے نکل کر ایوان ا قتدار کی غلام گردشوں میں گم ہوچکی ہے۔آپ اکثریتی پارٹی کے سربراہ تھے۔وزیر اعظم بننا آپ کا حق بھی تھا۔مگر342کے ایوان میں آپ کے ارکان کی تعداد 151کے لگ بھگ تھی۔مزید 21ووٹروں کے لئے جس طرح محترم جہانگیر ترین کا ایک ایک دو دو ارکان کے لئے جہاز استعمال ہوا اور اس سے جو اقتدار ملا ،میرے منہ میں خاک،بھان متی کا ہی تو اقتدار تھا۔رہی سہی کسر یوں پوری ہوئی کہ پارٹی کے سارے عہدے دار وفاق اور صوبوں میں وزیر ،مشیر لگ گئے۔پارٹی کے نائب چیئرمین ،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ،سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عارف علوی صدر ِ مملکت ،سیکرٹری اطلاعات فواد چوہدری وزیر اطلاعات ،پارٹی میں ریڑھ کی ہڈی جہانگیر ترین پہلے ہی نا اہل ۔۔۔میڈیا اور سیاسی ایڈوائزر وزیر مملکت ،پنجاب ،سندھ،خیبر پختونخوا میں بھی سارے ہی عہدیدار گورنر ،وزیر اعلیٰ وفاقی و صوبائی وزیر ،مشیر۔ بصد احترام اصل میں اقتدار میں آنے کے اول دس دنوں میں ہی یہ پہلا بڑا آپ کا نظریاتی یو ٹرن تھا۔جس کے بعد آپ کی ساری حکومت اب اسی نوکر شاہی کے پہیوں پر چل رہی ہے۔ جس کی پرورش شریف خاندان کے ایوان ِ اقتدار میں ہوئی۔ اب تک آپ نے جتنی بھی ایڈوائزری کمیٹیاں بنائی ہیں،بد قسمتی سے ان میں بھی اکثریت یا توآ پ کے کچن فرینڈز ہیں یا تو سابقہ حکومتوں کے نوالہ توڑنے والے ۔ یوں محترم وزیر اعظم ،آپ نے اپنے مخالفین کے لیے خود ہی کا م آسان کردیا ۔ کہ سو دن بعدآپ کے پاس پہنچے تو انڈوں اور چوزوں کے علاوہ کچھ نہیں۔مجھے لگ رہا ہے کہ یہاں تک آتے آتے زبان و بیان میں تلخ نوائی غالب آرہی ہے۔سو دن میں اگر آپ سو سنا رکی راہ ہی اختیار کر لیتے تو کم از کم ہاتھ میں ایک لوہار والی طاقت تو ضرور ہوتی۔