بنیادی سوال برقرار ہے اور تسلی بخش جواب سیاستدانوں کو سوجھ رہا ہے نہ وکلاکے قابل احترام نمائندوں اور دانشوروں‘ تجزیہ کاروں کو۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہر عام و خاص‘ ادنیٰ و اعلیٰ کا محاسبہ کرنے والے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان قابل احتساب ہیں یا نہیں؟ اس سے جڑا ضمنی سوال یہ بھی ہے کہ اگر آئینی و قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے حکومت صدر مملکت کے توسط سے کسی جج کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کرے تو اس اعلیٰ ادارے کو حق سماعت حاصل ہے یا نہیں؟ سیاستدان تو الاماشاء اللہ منطق و استدلال پریقین رکھتے ہیں نہ قاعدے قانون کے پابند ‘قوم کو عمر بھر قانون کی حکمرانی کا درس دینے والے وکلاء کرام بھی اس سادہ سوال کا جواب دینے کے بجائے ایک ہی بات کہے جا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے قابل احترام جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے لہٰذا فی الفورخارج کیا جائے۔ حکومت اور سپریم جوڈیشل کونسل پر دبائو ڈالا جا رہا ہے اور احتجاجی تحریک کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ٹی وی مذاکروں میں علی احمد کرد‘ امان اللہ کنرانی اور دیگر وکلاء رہنمائوں سے جب کسی نے پوچھا کہ کیا جج احتساب سے بالاتر ہیں تو ہاں یا نہیں میں جواب نہ ملا‘ یہ کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ صرف قاضی فائز عیسیٰ کا احتساب کیوں؟ وہی اپنے لیڈروں کے اندھے پیروکاروں والی لا یعنی منطق۔ قاضی فائز عیسیٰ اگر واقعی اپنی شہرت کے مطابق ہر عیب سے پاک اور بیرون ملک قانونی اثاثوں کے مالک ہیں تو کیوں سپریم جوڈیشل کونسل کے علاوہ قوم کے سامنے سرخرو نہ ہوں؟ اور نیک نام جج کے بدباطن مخالفین کو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے؟۔ یہی رہنما یان کرام عدلیہ میں موجود کالی بھیڑوں کا رونا روتے ہیں مگر ان کے خلاف سپریم کوڈیشل کونسل سے رجوع کرتے ہیں نہ ان کے ٹائوٹ اور حاشیہ بردار وکیلوں کو اپنی صفوں سے خارج۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے شفاف کردار ‘اصول پسندی اور بطور جج اہلیت و قابلیت کو ثابت کرنے کا درست فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے مگر جنگ میڈیا کے محاذ پر لڑی جا رہی ہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کنرانی نے لاہور اور لاڑکانہ کے لئے الگ الگ پیمانوں کا قصہ چھیڑ کر معاملے کو سیاسی رنگ دیدیا ہے اور محب وطن حلقوں کے خدشات کو تقویت پہنچائی ہے کہ ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن احتجاجی تحریک کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں وکلاء برادری اور عدلیہ میں موجود بعض عناصر اس کا حصہ ہیںاور ریفرنس محض بہانہ ہے۔ عدلیہ کی آزادی اورججوں کے احترام کے نام پر اس نوع کا بیانیہ احتجاجی تحریک میں مددگار ہو نہ ہو ان عدالتی فیصلوں کو مشکوک ٹھہرائیگا جو شریف خاندان کو فائدہ پہنچانے اور قومی دفاع و سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کے لئے صادر ہوئے۔ عدلیہ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس بیانئے سے فائدہ پہنچ رہا ہے یا نہیں ؟اس سے قطع نظر ان کے والد گرامی جناب قاضی عیسیٰ کی تحریک پاکستان کے لئے خدمات کا ذکر چھیڑ کر یار لوگوں نے بلوچستان کی تاریخ سے واقف لوگوں کو خواہ مخواہ یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ قلات کے شاہی جرگہ کے ارکان کو مسلم لیگ‘تحریک پاکستان اور الحاق پاکستان کی جدوجہد سے بدظن کرنے کے لئے قاضی صاحب مرحوم کا ناعاقبت اندیشانہ کردار اجاگر کریں۔ حال ہی میں ممتاز صحافی جناب ضیاء شاہد کی کتاب ’’پاکستان کے خلاف سازش‘‘ شائع ہوئی ہے جس میں جناب الطاف حسن قریشی کی ایک تحریر شامل ہے۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کی کہانی بیان کرتے ہوئے تفصیل سے لکھا ہے کہ جب میر جعفر خاں جمالی ‘ نواب محمد خان جوگیزئی ‘ نسیم حجازی‘ ایم مسعود(کھدر پوش)بلوچ اور پٹھان سرداروں کو پاکستان کے حق میں ہموار کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگا رہے تھے تو جذباتی اور نرگسیت کے مارے قاضی عیسیٰ صدر مسلم لیگ کی حیثیت سے عبدالصمد اچکزئی کے ہاتھوں میں کھیل کر کبھی سرداروں کو ریاست قلات اور برٹش بلوچستان سے نکلنے کی دھمکیاں دیتے‘ کبھی نواب جعفر خان جمالی کے خلاف اکساتے اور کبھی اے جی جی(ایجنٹ گورنر جنرل) سے درخواست کرتے کہ وہ شاہی جرگے سے قلات کے سرداروں کو نکال دیں جو انگریزوں اور کانگریسیوں کی خواہش تھی۔ اسی بنا پر میر جعفر خان جمالی اور الحاق پاکستان کے خواہش مند دیگر سرداروں نے سارے قضیے سے قاضی عیسیٰ کو خارج کر کے نواب جوگیزئی کے ذریعے سرداروں سے براہ راست رابطہ کیا اور پاکستان سے الحاق کی ترغیب دی۔ قاضی عیسیٰ نے اس موقع پر بھی ذاتی انا کی تسکین کی خاطر یہ اعلان کر دیا کہ مسلم لیگ ایسے کسی انتخاب میں حصہ نہیں لے گی جس میں ووٹ دینے والے رجعت پسند سردار ہوں گے۔ اگر نواب جوگیزئی‘ میر جعفرخان جمالی ‘ نسیم حجازی اور ایم مسعود شاہی جرگے کے ارکان کو قائل نہ کرتے اور عبدالصمد اچکزئی کی سازش کامیاب رہتی تو شاہی جرگہ بھارت سے الحاق کا فیصلہ کرتا اور انگریز 3جون سے قبل اسے بلوچ عوام کی خواہش قرار دے کر مان لیتا‘ یوں مقبوضہ جموں و کشمیر کی طرح ہم بلوچستان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے۔ نواب جوگیزئی کی کتاب میں بھی یہ تفصیلات موجود ہیں اور یہ بھی کہ نواب اکبر بگتی آخری وقت تک تذبذب کا شکار تھے ‘ بگتی قبیلے کے اصل سربراہ سردار جمال خان بگتی نے البتہ پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا اور نواب اکبر بگتی کی آزاد بلوچستان کی سازش کو ناکام بنایا۔ باقی سب کہانیاں ہیںجو یار لوگوں نے بعد میں گھڑی ہیں اور جن کا مقصد صرف اور صرف غداروں کو وفاداراور ظالموں کو مظلوم ثابت کرنا ہے۔ نیک نام جج کی آڑ میں سیاسی کھیل وہ لوگ کھیل رہے ہیں جن کا اپنا دامن تار تار ہے۔ چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کو بصد سامان رسوائی سپریم کورٹ سے رخصت کرنے‘ عدالت عظمیٰ پر اپنے کارندوں کے ذریعے ہلہ بولنے اور جسٹس قیوم جیسے ججوں سے مرضی کے فیصلے کروانے والے مسلم لیگی قائدین ہوں یا سید سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کے عوض تحریری یقین دہانی حاصل کرنے کے خواہش مند پیپلز پارٹی کے اصاغر و اکابر جب عدلیہ کی آزادی اور تکریم کا فلسفہ جھاڑتے ہیں تو آدمی سر پیٹ لیتاہے۔ سید سجاد علی شاہ مرحوم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ آصف زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے مجھ سے یہ تحریری یقین دہانی چاہی کہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بن کر میں ان کے احکامات کی تعمیل اور ان کی کرپشن سے چشم پوشی کروںگا۔مجھے کہا گیا کہ میں ایک پیشگی استعفیٰ لکھ کر شاہی جوڑے کے حوالے کروں جو بوقت ضرورت منظور کر کے مجھے سپریم کورٹ سے فارغ کیا جا سکے مگر میں نے انکار کر دیا محترمہ نے جہانگیر بدر کوچیف جسٹس آف پاکستان بنانا چاہا اور میاں نواز شریف نے چیف جسٹس کو ایک رات کے لئے حوالہ زندان کرنے کی فرمائش کی جو ریکارڈ پر ہے۔ یہ وہی عدلیہ ہے جس کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سمیت پانچ قابل احترام ججوں کے خلاف میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے ایک سال تک مخالفانہ مہم چلائی‘ اسی عدلیہ کے فیصلوں کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے چمک کا نتیجہ قرار دیا اور یہی سپریم کورٹ ہے جس کے فیصلے کو پیپلز پارٹی کے خورد کلاں جوڈیشل مرڈر سے تعبیرکرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن) کا تو فلسفہ حیات ہی یہ ہے کہ جو جج جرنیل اور جرنلسٹ ان کی رہنمائوں کی کرپشن‘ لاقانونیت ‘ بے ضابطگی اوراختیارات سے تجاوزکو خوش دلی سے برداشت کرے‘ کسی غلط کاری سے روکے نہ ٹوکے وہی حریت مآب اور جمہوریت پسند ہے اور ہر وہ شخص گردن زدنی‘ جمہوریت دشمن ‘جو سوال اٹھائے ‘ قانون شکنی اور چوری چکاری کا پردہ چاک کرے اور غلطی سے پوچھ بیٹھے کہ حضور! بیرون ملک کروڑوں ڈالر کے اثاثے کیسے بن گئے؟ ذرا ثبوت تو دکھائیے ۔یہ خوش قسمت لوگ ہیں کہ ان کی لوٹ مار اور سینہ زوری کا دفاع کرنے کے لئے نامور وکیل دستیاب ہیں اور قلمی کارندے بھی۔ حضرت عمر ؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم عدلیہ اور عوام کے سامنے جوابدہ ہیں مگر میاں نواز شریف ‘ آصف علی زرداری اور عدلیہ کے وہ جج ہرگز قابل احتساب نہیں جو شریف خاندان اور زرداری خاندان کے علاوہ ان کے ہمنوائوں‘ حاشیہ نشینوں اورکفش برداروں کو پسند ہیں۔ سوال پھر بھی برقرار ہے۔