پانی پت کی دھرتی میں قدرت نے کوئی ایسی تاثیر رکھی ہے کہ مردم شناسی گویا یہاں کے لوگوں کے خون میں شامل ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اس خطے کی واحد پہچان تباہ کُن جنگیں تھیں۔ پھر وہاں حالی پیدا ہو گئے، مَیں سمجھتا ہوں کہ ہمارے جدید اُردو ادب پہ جتنا بڑا احسان مولانا حالی کا ہے، شاید ہی کسی اور اکلوتی شخصیت کا ہو، حتّٰی کہ اُردو کے سب سے بڑے شاعر اقبال کو بھی اگر حالی ہی کی خوبصورت اور شان دار توسیع سمجھا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ لکھنو کے منھ زور پھبتی باز کہتے ہی رہ گئے :ع ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ حالی کے ایک ہی مقدمے نے لکھنو کی ادبی تقدیر اور اُردو تنقید کا فیصلہ لکھ دیا۔ مولانا الطاف حسین حالی، تحصیلِ علم کی ایسی لگن، شعر و سخن کا ایسا ہُڑک کہ مایوں بیٹھی دلھن تک کو چھوڑ چھاڑ دلّی جا براجے۔ایک معمولی قصبے میں پرورش پانے والے اس نوجوان کی مردم شناسی اور علمی، ادبی معیار ملاحظہ ہو کہ پورا دلّی شاعروں، مشاعروں سے بھرا پڑا ہے لیکن اس کی نظرِ انتخاب اور نگاہِ التفات پڑی تو میرزا نوشہ پر۔ آج بھلے کوئی لاکھ کہتا پھرے کہ حالی کو دلّی میں متعارف کرانے کا سہرا مرزا غالب کے سر ہے لیکن اس کے ساتھ یہ تسلیم کیے بنا پوری حقیقت واضح نہیں ہوتی کہ غالب فہمی اور غالب شناسی کا بتدائی سِرا بھی ’یادگارِ غالب‘ کے ساتھ بندھا ہے۔ سوانح نگاری کا ہنر تو حالی کو اس درجے پہ عطا ہوا تھا کہ انھوں نے نہ صرف اُردو ادب میں اس صنف کی بنیاد ڈالی بلکہ شیخ سعدی کو بر عظیم میں جس ڈھنگ سے متعارف کرایا اور سرسید کا مقدمہ جس سلیقے اور جی جان سے لڑا ، وہ انھی کا حصہ ہے۔ سوانح عمری کے کٹھن سفر پہ تو ایک وکیل، ایک ادیب، ایک ہمدرد انسان اور ایک پروموٹر ہاتھ میں ہاتھ ڈال کے روانہ ہوتے ہیں۔ کامیاب اور کام کا سوانح نگار وہی ہوتا ہے، جو یہ چاروں صفات گھر سے ساتھ لے کے چلتا ہے۔ سوانح کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ سانحہ کی جمع ہے۔ سانحہ اور حادثہ کو بالعموم یکساں معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حادثہ محض جسمانی، ظاہری اورذاتی نقصان کا نام ہے، جب کہ سانحے کا تو پہلا شکار ہی دل ہوتا ہے۔ پھر حادثہ وقتی ہوتا ہے، جب کہ سانحہ تو بعض اوقات صدیوں کی دہلیز پہ دھرنا دے کے بیٹھ جاتا ہے۔ حادثہ صرف منفی اثرات کا حامل ہوتا ہے جب کہ سانحہ تو کبھی کبھی قوموں اور معاشروں کی تقدیر بدل دینے کا ضامن بن جاتا ہے۔ کسی دیدہ وَر کی زندگی کے ایسے ہی لمحات کو دل جمعی سے جمع کرلینے کا نام سوانح ہے۔سوانح تو دبے پاؤں کسی شخصیت کے اندر اتر جانے کی لگن ہے۔ سوانح، ذہن کے کونوں کھُدروں میں پڑی شخصیت کو جھاڑ پونچھ کے دل کے ڈرائنگ روم میں سجانے کا با کمال فن ہے۔ ایک اچھے شخصیت نگار ہی کی بابت کسی نے کہا تھا: ؎ ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے لمحۂ موجود میں ہمارے ارد گرد پانی پت ہی کے ایک سپوت ڈاکٹر علی محمد خاں کی صورت میں موجود ہیں، جو بھولی بِسری شخصیات کے حُلیے اُجالنے کے سارے حیلے جانتے ہیں۔ان کے پانی پتی قلم میں دودھ پتی والی تاثیر ہے۔ ہمارے معاشرے میں بیشتر لوگوں کا مزاج تو مکھیوں کے مماثل ہے، عیب جوئی اور یاوہ گوئی جن کے خمیر میں رچ بس گئی ہے۔ اُنھیں صرف زخم کریدنے کا فن آتا ہے۔ زخموں پہ مرہم رکھنے کا ہنر تو اعلیٰ انسانی صفات کا متقاضی ہے۔ ہنر کھوجنا تو فرشتہ صفت لوگوں کی خوبی ہے۔ برائی کا ڈھنڈورا پیٹنا بہت آسان ہے، اچھائی کی تصویر اتارنا کٹھن کام ہے، اس کے لیے ایک صاف ذہن، شفاف دل اور خونِ جگر میں انگلیاں ڈبونے کا ہنر آنا چاہیے۔ یہی صفات ہیںجو کسی انسان کو ایک سچا ادیب اور اچھا سوانح نویس بنا دیتی ہیں۔ جو لوگ ڈاکٹر صاحب کے کام اور قیام سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ جملہ اوصاف ان میں بدرجۂ اُتم موجود ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مولانا حالی کے ہم وطن ہیں، اس لیے محنت، لگن، برداشت، بھلمنساہٹ، ادبی ترجیحات، ان کی گھُٹی میں پڑے ہیں۔ ان کی امانت، دیانت، شرافت، صداقت دیکھ کے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا پرانا مونو گرام ذہن میں گھوم جاتا ہے۔ حق گوئی و بے باکی ان کا خاندانی وتیرہ ہے۔ ان کی شخصیت کا دبدبہ اور سج دھج ایسی ہے کہ کہیں حاضر بھی ہوں تو لگتا ہے تشریف لائے ہوئے ہیں۔ ان کے کام کا دورانیہ اور میزانیہ تو حیرانیہ کی حدوں کو چھوتا ہے۔ بچپن میں دیگر بچوں کی طرح ہم لوگ بھی اَن دیکھے مستقبل کی اچھی امید میں لہک لہک کے گایا کرتے تھے: مَیں چھوٹا سا اِک لڑکا ہوں پر کام کروں گا بڑے بڑے لیکن ان حضرت کو دیکھ کے تو وہی معصوم سا نعرہ اس انداز میں لگانے کو جی چاہتا ہے: مَیں اسّی سال کا لڑکا ہوں ہر کام کروں گا کھڑے کھڑے ڈاکٹر علی محمد خاں کی زندگی کا بیشتر وقت اپنی اور تعلیمی دنیا کی نصاب سازی میں گزرا ہے لیکن کچھ عرصے سے ان کا قلم شخصیت سازی کی منزلیں سر کرنے میں لگن سے مگن ہے۔ ’اب اُنھیں ڈھونڈ ‘ میں اُنھوں نے علمی و ادبی شخصیات کے کیا خوب مرقعے ترتیب دیے ہیں۔ خاص طور پر ماں جی کا خاکہ تو دل کی روشنائی میں قلم ڈبو کے لکھا۔ پھر ایف سی یونیورسٹی والوں کی خواہش پر وہاں کے ایک نامور سپوت چودھری احمد سعید کی کامیابیوں کی کتھا ’سر نوشت‘ کے عنوان سے دل فریب انداز میں لکھی۔ ڈاکٹر صاحب کا تازہ ترین کارنامہ ’’ شجرِ سایہ دار‘‘ کی صورت ہمارے سامنے ہے، جو پاکستان کے معروف ماہرِ تعلیم، سماجی خدمت گار اور ایک نیک دل انسان جناب قاضی برکت علی کی سوانح حیات ہے۔ قاضی برکت علی کی بانوے سالہ زندگی ایک پُر عزم ، پُر مشقت اور پُر امید جِدّوجُہد کی داستان، جنھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک معمولی مدرس کی حیثیت سے کیا لیکن ان کی محنت، محبت اور نیک نیتی نے ان کے تعلیمی مشن کو ملازمت سے سُبک دوشی کے بعد بھی زیادہ استقامت سے جاری رکھا اور اور ان کا تینتیس سال قبل لگایاہوا ’قاضی پائلٹ سکول‘ کا پودا آج ایک چھتنار درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ چند طلبہ کی ٹوٹی پھوٹی رہنمائی سے آغاز پانے والا سفر سات برانچوں، تیرہ اداروں، چودہ ہزار طلبہ کی معیاری ترین تعلیم کا ضامن، پانچ سات سو پڑھے لکھے افراد کا کفیل اور آنے والی نسلوں کا فخر ہے۔ ایسا مثبت ارتقا خوش قسمت لوگوں کو میسر آتا ہے۔ قاضی صاحب امرتسر کی پیدائش ہیں بلکہ دوستو! مَیں نے تو آج تک علمی ادبی دنیا میں جتنے بھی کامیاب لوگوں کے بارے میں پڑھا ہے، ان میں سے نوے فی صد وہ ہیں جو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ یقین کریں اب تو میرے اشتیاق کا یہ عالم ہے کہ اگر کبھی کسی معجزے کے تحت مجھے دوبارہ پیدا ہونے کا موقع میسر آ جائے تو مَیں بے دھڑک اور بلا دریغ امرتسر میں پیدا ہونا پسند کروں گا ۔