پاکستان میں کمپیوٹر کی آمد تو بہت پہلے ہو گئی تھی، لیکن مجھے ذاتی کمپیوٹر حاصل کرنے کا اعزاز 1997ء میںحاصل ہوا ۔ اس سے قبل میں ایک اردو روزنامے، جس سے مین بطور رپورٹر وابستہ تھا، کے کمپیوٹر سیکشن میں جا کر فارغ وقت میں اردو ٹائپنگ کی پریکٹس کرتا تھا۔ انگلش ٹائپنگ تو سکول کالج کے زمانے میں والد صاحب کے دفتر میں موجود ٹائپ رائٹر پر سیکھ لی تھی۔اس کی بدولت اردو ٹائپنگ سیکھنے میں زیادہ دقت نہیں ہوئی۔ پھر ایسوسی ایٹڈ پریس سے 1995ء میں وابستہ ہوا تو دوبارہ انگریزی ٹائپنگ سے واسطہ پڑا لیکن بآسانی ہاتھ رواں ہو گیا۔ جب گھر پر نیا کمپیوٹر آیا تو میری ذمہ داریوں میں سپریم کورٹ کی کوریج تھی، انٹر نیٹ اور ای میل کا زمانہ تھا اور سپریم کورٹ گھر کے قریب بھی تھی۔میرے روزمرہ کے معمولات میں گھر پر کمپیوٹر آجانے کی وجہ سے تقریباً تبدیل ہو گئے۔صبح سویرے سپریم کورٹ پہنچ جاتا ، سارا دن کی کارروائی سننے کے بعد سہ پہر تک گھر آ جاتا۔ تھوڑی پیٹ پوجا کے بعد کمپیوٹر پر بیٹھ کر خبریں ٹائپ کرتا اور دفتر ای میل کر کے ڈیسک سے تصدیق کرنے کے بعد کہ انہیں تمام مواد پہنچ گیا ہے۔ اگر وقت ہوتا تو کرکٹ گرائونڈ میں جمخانہ کرکٹ کلب کے ساتھ پریکٹس اور ایکسرسائز کرتا پھر فریش ہو کر رات کو دفتر جا کر حاضری دیتا اور اگلے دن کی کوریج کے حوالے سے اپنے سینئرز کو آگاہ کر تا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے کسی اہم فیصلہ کا اعلان ہوا ہوتا تو اسکی خبر عموماً رات کو ہی فائل ہو پاتی تھی کیونکہ فیصلے کو پڑھنا اورصحیح رپورٹ کرنا بہت محنت طلب کام تھا اور ہے۔ مجھے اس معمول کو اپنائے چند ہی دن ہوئے تھے کہ سپریم کورٹ سے گھر لوٹا اور کمپیوٹر آن کیا کہ کام کر سکوں تو بیگم صاحبہ نے کہا کہ یہ کمپیوٹر نہیں میری سوتن ہے، میںحیرانگی سے انکا منہ دیکھنے لگا تو انہوں نے ایک قہقہہ لگایا کہ یہ میں نہیں کہہ رہی یہ ہمارے جو کام کرنے کے لئے جو خاتون(جمیلہ) آتی ہیں انکا فرمان ہے۔میں نے حیرت سے پوچھا کیوں ایسا کیا ہوا تو انہوں نے بتایا کہ جمیلہ بیگم کا خیال ہے کہ گھر میں اس منحوس کمپیوٹر کے آنے سے پہلے بھائی جب بھی گھر آتے تھے آپ کے ساتھ بیٹھ کر بات وات کرتے تھے۔ جب سے کمپیوٹر آیا ہے وہ آتے ہی اس کی طرف جاتے ہیں اور اس پر بیٹھ کر نجانے کیا کرتے رہتے ہیں، ’’مجھے تو یہ مشین آپکی سوتن لگتی ہے‘‘۔اس دور کی کوڑی لانے پر میں بھی بہت محظوظ ہوا اور اس دن سے ہم نے کمپیوٹر کو سوتن کے نام سے موسوم کر دیا۔یہ ایک ہلکا پھلکا سا واقعہ تھا جسکو ہم نے گزشتہ بائیس سال میں کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ کمپیوٹر، انٹر نیٹ، وائی فائی، موبائل فون اور اب سمارٹ فون اور اس پر موجود سوشل میڈیاکی اپلیکیشنز، اسکو سب نے سائنسی ترقی کے طور پر قبول کیا اور سراہا بھی۔ خاص طور پر میڈیا کے شعبے میں اس سے کام کرنے والوں کو بہت آسانی میسرآئی۔لیکن اسکا بے دریغ اور بے جا استعمال اب تکلیف دہ ہوتا جا رہا ہے۔ آپ دوستوں میں ہیں تو کوئی ڈھنگ سے بات ہو پاتی ہے نہ کوئی سلیقے کا موضوع منتخب ہو پاتا ہے۔گفتگو کچھ ہو رہی ہوتی ہے کہ کسی کو وٹس ایپ پر کوئی لطیفہ موصول ہو گیا تو اس نے ساری بات درمیان میں روک کر اسکو سنانا اپنا فرض اولین سمجھا۔ کوئی کارٹون ،ویڈیو، تصویر، تضحیک آمیز جملہ جو کہ ان صاحب کی سیاسی انا کی تسکین کا باعث ہو تو،آپ لاکھ جتن کر لیں وہ آپکو اپنے موبائل سے دکھائے گا بھی اور سنائے گا بھی، بھلے اس میں کیسی ہی واہیات زبان استعمال کی گئی ہو۔میری طرح سب ہی والدین کوشش کرتے ہیں کہ بچوں کو ایسی لفظی ترکیبوں سے آشنا نہ ہونے دیں جو عرف عام میں گالی کے مترادف ہیں یا گالی ہیں۔لیکن سوشل میڈیا پر بھڑاس نکالتے شعلہ نوا لوگ(اس میں عمر کی کوئی تخصیص نہیں البتہ تربیت کی ہے)ہم سب کے بچوں کو تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود ان سب لفظی ترکیبوں سے آشنا کر رہے ہیں۔گھر میں موجود ہوں تو مجھے جمیلہ خاتون کا ’’سوتن‘‘ والامشاہدہ بار بار یاد آتا ہے جب کمرے میں موجود گھر کے تمام افراد اپنے اپنے فون پر کچھ نہ کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ دن بھر کام کر کے گھر لوٹتے ہیں تو دل کرتا ہے کہ گھر والوں سے جس میں بیگم بچے، کئی گھروں میں بزرگ، بہن بھائی موجود ہوتے ہیں، سے کوئی بات کریںدن بھر کی مصروفیات کے بارے میں جانیں لیکن مشکل سے اس بارے میں کوئی بات ہو پاتی ہے۔ہماری زندگیوں میں کوئی اور آگیا ہے جو زندگی کے بہت سے معاملات میں آپکی آواز اپنے بچوں، شاگردوں اور کم عمروں تک نہیں پہنچنے دے رہا۔ اسکی اپنی آواز ہے اور وہ اتنی مدھر اور رنگین ہے کہ اس میں سب گم ہیں۔ زندگی کا تجربہ غیر اہم ہو گیا ہے، اچھے برے کی تمیز نئی ٹیکنالوجی سے سیکھی جا رہی ہے، کون دھوکہ دے سکتا ہے کون وفادار ہے یہ سب یو ٹیوب اور دوسری اپلیکشن بتا رہی ہیں۔کھانا بنانے کے نسخے تو ہمارے پیٹ کے دشمن ہو چکے ہیں۔ بیگم صاحبہ کوئی نیا نسخہ فون پر سن کر کھانا بناتی ہیں تو اسکا پہلا تجربہ ہمارے معدے پر کیا جاتا ہے۔سر دست تو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا لیکن کبھی بھی کوئی نسخہ بھاری پڑ سکتا ہے۔ صحافت و ادب کے شعبے میںاس نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کے فوائد کے ساتھ ساتھ اسکے نقصانات شروع کے دنوں میں ہی محسوس کئے جانے لگے جب کتابت کرنے والے حضرات کی نوکریوں کا یہ دشمن متعارف ہوا۔ کتاب لکھنی ہو یا روزانہ اخبار کی کتابت ہو ایک بہت بڑی تعداد نہایت خوش نویس کاتبوں کی اپنے ہنر سے لفظوں کو جاندار بناتی تھی۔اسکے بعداخبار کی کاپی جوڑنے والوں کی چھٹی ہوئی۔ اسکو ایک معمولی نقصان سمجھا گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ٹیکنالوجی کے فوائد بھی بڑھے اور نقصانات بھی اسی تناسب سے بڑھ رہے ہیں۔نئی ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھانا کوئی گناہ نہیں لیکن اسکے کچھ حصوں کے استعمال میں اعتدال کی ضرورت ہے تاکہ انسان بھی خوش رہیں اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا کام بھی چلتا رہے۔