عراق فتح ہوا تھا نہ ہی ایران و خراسان سرنگوں ،ریاست مدینہ معاشی طور پر کمزور تھی مگر رسول اللہ ؐ نے فرمایا:آگاہ رہو! زمانہ جاہلیت کا ہر سود کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ تم صرف اپنے اصل مال کے حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ ہاں عباس بن عبد المطلب کا لوگوں کے ذمے جو سودی قرض ہے، وہ سارے کا سارا معاف کیا جاتا ہے۔ آج بھی یہ بحث جاری، سود کاروبار ہے۔ قرآن کریم نے جب اس کی حرمت کا اعلان کیا ،تو اس وقت بھی اس پر بڑا مباحثہ ہوا۔ سوال کیا گیا: سود اور تجارت میں کیا فرق ہے؟ یہ بھی کاروبار کی ایک شکل ہے کہ چیزیں نہ بیچیں ، پیسہ بیچا۔قرآن کہتا ہے:انہوں نے کہا کہ تجارت بھی تو ایسی ہی ہے جیسے سود لینا۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام ۔ یہ دلیل ذکر کر کے قرآن کریم نے پھر دو ٹوک کہا: نہیں یہ تجارت نہیں ،بلکہ الگ چیز ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہر شعبدہ باز معزز،ہر نجیب خوار زبوں حال ۔مادی مفادات کے لیے ہر کوئی تنکے کا سہارا لینے پر تیارہوتا ہے ۔اسی بنا پر شعبدہ باز عروج پاتے ہیں ۔سود کے معاملے میں بھی یہی کشمکش جاری رہی۔بالآخر حق غالب آ گیا ۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ نے واقعہ لکھا ہے۔ طائف والوں نے کہا: ہم کلمہ پڑھیں گے مگرہماری کچھ شرطیں ہیں۔ ایک شرط یہ تھی، آپ شراب کو حرام کہتے ہیں، ہم شراب نہیں چھوڑ سکتے ۔ دلیل دی، یہ ہماری معیشت کا مسئلہ ہے۔ دوسری شرط یہ رکھی۔آپ کہتے ہیں: سود حرام ہے۔ ہمارا تو سارا کاروبار سود پر چلتا ہے، سود نہیں چھوڑ سکیں گے۔ تیسری شرط۔ آپ کہتے ہیں: زنا حرام ہے۔ یہ بھی ہم سے نہیں چھوٹے گا۔ بولے یہ ہمارا کلچرل ہے ۔ہمارے ہاں شادیاں دیر سے کرنے کا رواج ہے، گزارا نہیں ہوتا، اس لیے ہم زنا بھی نہیں چھوڑیں گے۔ پھر کہا ہم نماز پڑھیں گے مگر اتنے ٹائٹ شیڈول کے ساتھ نہیں۔اوقات اور تعداد ہم اپنی مرضی سے منتخب کریں گے۔ نماز سے انکار نہیں لیکن یہ پانچ وقت کی پابندی ہم سے نہیں ہو سکتی۔ ہم خود اپنی سہولت سے اس کا انتخاب کر لیں گے۔ کب اور کتنی پڑھنی ہے۔ اگر آپ ان شرطوں کو قبول کرتے ہیں تو ہم اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمیں کلمہ پڑھا دیجیے۔جناب نبی کریمؐنے فرمایا: ممکن نہیں ۔ یہ کیسے ہو سکتا، مکہ میں اسلام مختلف اور ستر میل کے فاصلے پر طائف میں دین الگ ہو۔ مکہ میں تو سود حرام ہو اور طائف میں حلال ۔ مکہ میں پانچ نمازیں اور طائف میں تین ۔ مکہ میں شراب ممنوع ہو اور طائف میں جائز۔ فرمایا، نہیں کوئی شرط قبول نہیں ۔ سوسائٹی میں اسلام کو بحیثیت سسٹم قبول کرنے میں ہماری آج بھی یہی شرطیں ہیں۔ نماز میں زبردستی نہ کرو۔ باقی معاملات میں دنیا کے ساتھ چلو، تو باقی کا اسلام ہمیں قبول ۔ بانی پاکستان ایک دو ا ندیش شخص تھے۔یکم جولائی 1948کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پرآپ ؒنے فرمایاتھا:میں انتہائی توجہ سے آپ کے تحقیقی ادارے کے کام کا جائزہ لیتا رہوں گا ،جو بنکاری نظام کو اسلام کے معاشرتی اورمعاشی اصولوں پرترتیب دینے میں سرانجام دے گا۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے ایسے لاینحل مسائل پیدا کردیے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو نظر آتاہے کہ آج کی دنیا کو جس تباہی کا سامنا ہے، کوئی کرشمہ ہی اس سے بچا سکتا ہے۔ پون صدی سے سود کے خلاف جنگ مسلسل جاری،مگر ہماری بے بسی اور کج فہمی دیکھیں ،پھر بھی اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’پاکستانی عوام تباہ حال کیوں ہیں؟ پاکستان کے معاشی،سماجی اور سیاسی حالات اتنے ابتر کیوں ؟‘‘ ہم اس کا یہ جواب کیوں نہیں جانتے کہ اللہ اور رسولؐ سے جنگ کوئی نہیں جیت سکتا۔ سْود ختم کرنے کے بارے میں اسلامی مشاورتی کونسل نے پہلی سفارشات 1969 میں پیش کی تھیں،مگر ان پرکبھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔1980کے آخر میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے تمام تجارتی بنکوں کو حکم جاری کیا کہ’’1981 سے وہ اپنے تمام معاملات غیر سودی بنیادوں پر قائم کرنے کے پابند ہوں گے۔سٹیٹ بنک کے اس حکم نامے کے پیش نظر حکومتی تحویل میں موجود تجارتی بنکوں نے نفع و نقصان پر مبنی پی ایل ایس اکائونٹ کے نام سے غیر سودی کھاتے کھولنے کی اسکیم شروع کی اوراس بات کا عندیہ دیا کہ: ’’رفتہ رفتہ پورے بنکاری نظام کو غیر سودی نظام میں تبدیل کردیا جائے گا‘‘۔تاہم، وقت گزرتا رہا،مگر کوئی ٹھوس تبدیلی سامنے نہ آئی۔ وفاقی شرعی عدالت نے 14 نومبر 1991 کو سود کے خاتمے کا تاریخی فیصلہ دیا۔ شرعی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ ’’بنکوں کے منافع سمیت سْود ہر شکل میں حرام ہے ،خواہ اسے منافع کہا جائے یا ’مارک اَپ‘ کا خوب صورت نام دیا جائے‘‘۔ عدالت نے حکومت کو سْود ی قوانین کی متبادل قانون سازی کے لیے چھے ماہ کی مہلت دی اور فیصلے میں واضح کردیا کہ ’’یکم جولائی1992سے متذکرہ قوانین خود بخود کالعدم ہو جائیں گے‘‘۔اس معاملے میں اشرافیہ کبھی بھی غیر جاندار نہیں رہی۔ہمیشہ روڑے اٹکاتی رہی۔1999سے لیکر 2022تک اشرافیہ نے ہر وہ حربہ استعمال کیا ،جس سے سود کی حلت ثابت ہو سکتی ۔دوسری جانب جماعت اسلامی ،تنظیم اسلامی ،پاکستان شریعت کونسل جیسی تنظیموں نے محنت جاری رکھی ۔سراج الحق ،مولنا زاہد الراشدی،شجاع الد ین شیخ اور مولانا عثمان رمضان کی کاوشیں کامیاب ہوئیں۔ ایک بار پھر عدالت نے 5برسوں میں سود کے خاتمے کا حکم دیا ہے ۔سود کے بغیر کاروبار چل سکتا ہے ۔بانی اخوت ڈاکٹر امجد ثاقب نے بغیر سود کے بنکاری کر کے دکھا ئی ۔ان کے کارنامے دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔اسی بنا پر انھیں نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا ۔ ان کی تنظیم اب تک اڑھائی کروڑافرادکو قرضے دے چکی ۔ ریکوری کی شرح 99فیصد ۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیرمیں بھی قرضے دیئے گئے ۔ چار ہزار سے زائد ملازمین، آٹھ سوسے زیادہ دفاتر اور چار سو شہروں میںیہ کام جاری۔موتی ہمیشہ گہرائی میں ہوتے ہیں ،غوطہ زن ہو کر ہی پائے جا سکتے ،بشرط کامل یکسوئی کے ساتھ جستجو کی جائے ۔مگر اس نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ۔عظیم دانشور نے کہا تھا :دو جگہوں پر خاموش رہنا بہتر ہے، جب تمہارے پاس الفاظ کی قلت ہو اور جہاں تمھارے الفاظ کی کوئی قدر و قیمت نہ ہو۔