سعودی عرب کے ولی عہد اور عملی طور پر حکمران شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان ہر لحاظ سے کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے۔اگرچہ جیسا کہ وزیراعظم عمران خان نے شہزادہ محمد سے خود کہا کہ بہت اچھا ہوتا کہ دورے کا دورانیہ طویل ہوتا کیونکہ عملی طور پر سعودی رہنما اور ان کے وفد کی اسلام آباد یاترا دنوں کے بجائے گھنٹوں پر مشتمل تھی۔اس کی وجہ وزیراعظم کے مطابق سکیورٹی کے معاملات تھے لیکن یہ معمہ حل نہیں ہو سکا کہ ولی عہد ایک دن تاخیر سے کیوں پاکستان پہنچے کیونکہ عموماً سفارتی سطح پر دوروں کی جو تاریخیں باہمی مشاورت سے طے ہوتی ہیں ان پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔بھارتی میڈیا مسلسل منفی پراپیگنڈا کر رہا ہے کہ پلوامہ کا واقعہ جس میں 46 بھارتی سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے دورے میں تاخیر اسی کا شاخسانہ ہے لیکن دورے کے نتائج کے حوالے سے دیکھا جائے تو بھارت کی یہ در فنطنی درست نہیں بلکہ اس کو اس دورے کی بہت تکلیف ہے اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں۔گوادر میں آئل ریفائنری بھی لگ رہی ہے اور بعض اندازوں کے مطابق ریفائنری کی تکمیل کے بعد پاکستان کے تیل کے بل میں سالانہ تین ارب ڈالر کی بچت ہو گی۔اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا تھا کہ چین گوادر میںسعودی عرب کی سرمایہ کاری سے ناخوش ہے لیکن چینی سفارتخانے کے ڈپٹی چیف آف مشن لی جیان ژاؤ نے کہا ہے کہ سعودی عرب سمیت کوئی بھی ملک پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا حصہ بن سکتا ہے،تیسرے فریق کی شمولیت پر چین کو کوئی تحفظات نہیں،’سی پیک اوپن پروگرام ہے،امید ہے اس میں مزید ممالک شامل ہونگے۔بلکہ اب یہ کہا جارہا ہے کہ ’سی پیک‘ اور سعودی عرب سے اقتصادی تعاون ’ون بیلٹ ون روڈ‘ کی لڑی میں پروئے جائینگے،یقیناً یہ پاکستان کیلئے اچھی خبر ہے۔ عمران خان نے وزیر اعظم ہاؤس میں سعودی ولی عہد کے اعزاز میں عشائیہ سے خطاب اور اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ سعودی عرب پر کسی قسم کا حملہ پاکستان پر حملہ سمجھا جائے گا اور اسلام آباد دامے درمے سخنے اپنے برادر ملک کے ساتھ کھڑا ہو گا۔دوسری طرف یہ کہ پاکستان کی فوج خود کو یمن کی مہم جوئی میں جھونکے گی کا کوئی ذکر نہیں ہوا اور نہ ہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ پاکستان کی پارلیمنٹ اس قسم کے کسی ایڈونچر کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد منظور کر چکی ہے۔گزشتہ 6 ستمبرکو یوم شہدا کی تقریب میں جس میں وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ جی ایچ کیو میں مہمان خصوصی تھے،وزیر اعظم نے آرمی چیف کی موجودگی میں اس پالیسی کا اعادہ کیا تھا کہ وہ دن لد گئے جب پاکستان کسی پرائی جنگ میں ملوث ہو گا۔یقیناً یہ مثبت پالیسی ہے کیونکہ اس کے باوجود کہ اسلام آباد نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو خصوصی اجازت دی کہ وہ اسلامی فوجی اتحاد جو یمن میں سعودی مہم جوئی کے حوالے سے بنا تھا کے سربراہ بن جائیں ،تاہم خود کو اس جنگ سے الگ رکھا ۔پرائی جنگ ،پرائی سرزمین پر لڑنا دنیا بھر میں ایک انتہائی ناکام پالیسی ثابت ہوئی ہے۔مصر کے انقلابی صدر جمال عبدالناصر نے 70 ہزار مصری فوج کے ساتھ یمن پر چڑھائی کی لیکن منہ کی کھانا پڑی۔ویتنام ،اس کے بعد صومالیہ اورحال ہی میں عراق اور افغانستان میں امریکہ کا بھی یہی حشر ہوا۔اور اب امریکہ انہی طالبان سے جن کے بارے میں صدر جارج ڈبلیو بش کہتے تھے کہ انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دینگے مذاکرات کرنے پر مجبور ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت پاکستان نے بغیر سوچے سمجھے اور کچھ جلد بازی میں سعودی ولی عہد کی اسلام آباد آمد کے موقع پر طالبان کو بھی آنے کی دعوت دیدی۔طالبان کا کہنا ہے کہ ان کے وفد کے بعض ارکان کو امریکہ نے کلیرنس نہیں دی جبکہ خود امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ انہیں تو باقاعدہ دعوت ہی نہیں دی گئی تھی۔خارجہ پالیسی کے فیصلوں میں خاص طور پر افغانستان کے گنجلک اور پیچیدہ مسئلے میں جلد بازی نہیں کرنا چاہئے تھی۔اس ضمن میں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے تھی کہ یہ مذاکرات قطر میں ہو رہے ہیں جس کے خلاف یمن کی جنگ کے حوالے سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پابندیاں لگا رکھی ہیںاور ہمارا دوست ملک ترکی بھی اسی صف میں کھڑا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے یہ کہہ کر کہ آپ سعودی عرب میں مجھے پاکستان کا سفیر سمجھیں عوام کے دل موہ لئے ہیں۔انہوں نے حاجیوں کو سہولتوں کو فراہمی اور قیدیوں کی رہائی کیلئے وزیر اعظم عمران خان کی پر زور اپیل پرجواب دیتے ہوئے کہا میں آپ کو’ناں‘ نہیں کر سکتا ،ایک اطلاع کے مطابق ولی عہد محمد بن سلمان نے 24 گھنٹے مکمل ہونے سے پہلے 2 ہزار 107 پاکستانیوں کی رہائی کا فرمان جاری کر دیا۔وزیر اعظم عمران خان اور سعودی ولی عہد کی باڈی لینگوئج سے لگتا تھا کہ وہ دونوں شیروشکر ہیںاور خان صاحب نے ان سے ایک قریبی تعلق بنا لیا ہے لیکن خارجہ معاملات میں قومی اور علاقائی مفادات کو اولین اہمیت حاصل ہوتی ہے۔شہزادہ محمد بن سلمان نے یہ بھی کہا کہ ہم اپنے خطے مشرق وسطیٰ پر یقین رکھتے ہیں اس لیے یہاں سرمایہ کاری کررہے ہیں اور ایک دن ’عظیم مشرق وسطیٰ‘ بنے گا اور اس کے مشرق میں پاکستان ہوگا۔لیکن یہ پہلی مرتبہ نہیںہے کہ وطن عزیز مشرق وسطیٰ کے اتنے قریب ہوا ہے۔1974 میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی تھی اس وقت بھی اسلامی کانفرنس کے حوالے سے پاکستان مشرق وسطیٰ بالخصوص سعودی عرب،لیبیا اور ایران کے بہت قریب تھا۔ ہمیشہ سے یہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ کیا پاکستان مسلمان ملک ہونے کے حوالے سے مشرق وسطیٰ کے ملکوں کی لڑی میں پرویا ہوا ہے یا اس کاناتا جنوبی ایشیا کیساتھ ہے۔ سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا اور بعد میں اس کا شیرازہ بکھرنے کے حوالے سے ہمارے حکمران یہ ڈفلی بجاتے رہے کہ ہم سنٹرل اورساؤتھ ایشیا کے درمیان پل بنیں گے۔اس ضمن میں ای سی او کو فعال کیا گیا۔شنگھائی تعاون تنظیم کے حوالے سے بھی کوششیںکی گئی تھیں۔افغانستان میں خانہ جنگی اور بھارت کی کہہ مکرنیوں اور خطے میں جارحانہ پالیسیوں کی بنا پر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔اسی بنا پر سارک بھی ایک ناکام تنظیم ثابت ہوئی ہے جس کا پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے باعث دو برس سے سربراہی اجلاس نہیں ہو سکا ۔اس صورتحال میں افغانستان میں اس کی کوششیں دوسری طرف بھارت اور ایران سے اچھے تعلقات پاکستان کے وسیع تر اقتصادی ،تجارتی اور قومی مفادات میں یقیناً پاکستان اب اس پوزیشن میں ہے کہ بھارت کے سوا متذکرہ تمام ممالک سے تعلقات بہتر اور خوشگوار بنائے جائیں لیکن ان تمام مثبت معاملات کے باوجود زمینی حقائق خاصے تلخ ہیں۔ سعودی ولی عہد نے پاکستان کی 5 فیصد سے زائد جی ڈی پی کا حوالہ دیاجو اندازوں کے مطابق اب 4 فیصد ہو گی،اقتصادی صورتحال دگرگوں ہے۔آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنا باقی ہیں اور پاکستان کی اقتصادیات کو جس قسم کے Melt down کا سامنا ہے اس کی تاریخ میں کم ہی مثال ملتی ہے۔دوسری طرف سکیورٹی کے معاملات بھی خاصے تشویشناک ہیں۔پلوامہ واقعہ کے حوالے سے بھارت جنگجوانہ ماحول پیدا اورپاکستان کو نام نہاد دراندازوں کا کوئی ثبوت فراہم کرنے کے بجائے معاملات کو خاصا کشیدہ کررہا ہے۔ جیش محمد جس نے پلوامہ کارروائی کی ذمہ داری قبول کی ہے کو پاکستان 2002 میں غیرقانونی قرار دے چکا ہے لیکن امریکہ اب بھی یہی رٹ لگا رہا ہے کہ نام نہاد جہادی گروپ پاکستان میں پناہ لئے خطے میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔بھارت کے علاوہ ایران بھی اپنے حوالے سے اس گردان میں شامل ہو گیا ہے۔ ہم اگر واقعی وطن عزیز کو امن کا گہوارہ اور اقتصادی ترقی کا ہب بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس بارے میں اپنی سکیورٹی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ایک بنیادی مسئلہ جو اس پیچیدہ صورتحال میں مزید تشویش کا حامل ہے وہ اپوزیشن اور حکومت کا ایک صفحے پر نہ ہونا ہے۔یہ بات قابل شرم ہے کہ ہماری حکومت نے یہ کہہ کر کہ اپوزیشن لیڈر تو کرپٹ ،چور اور مجرم ہیں اس لئے ہم نے انہیں نہیں بلایا۔اس پر سینیٹر شیری رحمان نے اپنے ردعمل میں کہا اپوزیشن جماعتوں نے سعودی ولی عہد کو خوش آمدید کیا، مگر حکومت نے معزز مہمان سے ملاقات کیلئے آصف زرداری، بلاول بھٹو اور شہباز شریف کو بھی مدعو نہیں کیا،اپوزیشن جماعتوں کو مدعو کئے جانے سے مثبت پیغام جاتا، مگر حکومت نے تو اسے وفاق کا حصہ ہی نہیں سمجھا، حزب اختلاف کے رہنماؤں کو نہ بلانا حکومت کی کم ظرفی ہے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں 10 رکنی پارلیمانی وفد نے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات کی جس میں ڈپٹی سپیکر، سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز، قائد حزب اختلاف راجہ ظفرالحق اور سینیٹر مشاہد اللہ بھی موجود تھے۔ مشاہد اللہ نے ملاقات کے حوالے سے بتایا سعودی ولی عہد نے پاک سعودیہ دیرینہ تعلقات کو ہر شعبے میں مزید مضبوط بنانے کے امور پر کھل کر بات کی۔