ابو حیدر سورۃ فاتحہ قرآن مجید کی سب سے پہلی اور یکمشت نازل ہونے والی سورت ہے ۔ گویا مکمل سورۃ کی شکل میں نازل ہونے والی پہلی سورۃ ’’الفاتحہ‘‘ہے ۔یہ سورۃ دو بار نازل ہوئی ایک مرتبہ مکہ معظمہ میں اور دسری مرتبہ مدینہ منورّہ میں۔اس سورت کو’ سبع‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی سات آیتیں ہیں اور’ مثانی‘ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ہر دورکعت نماز میں اس کو دوبار پڑھا جاتا ہے اس سورت کو پڑھنے کے بعد نماز میں کوئی دوسری سورت پڑھی جاتی ہے ۔اس سورت کو’مثانی‘ کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ دو مرتبہ یعنی ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں جبکہ مسلمانوں پر نماز فرض ہوچکی تھی نازل ہوئی۔دوسر ی مرتبہ یہ سورت مدینہ منورہ میں تحویل کعبہ کے وقت نازل ہوئی۔سورۃ فاتحہ کا ایک نام’ اُم القرآن‘ ہے ،اُم کسی چیز کی اصلیت اورکل کو کہتے ہیں کیونکہ اس سورت میں پورے قرآن پاک کی تعلیم کا آئینہ پیش کیا گیا ہے اس لیے اسے اُم القرآن کہا جاتا ہے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:الحمدللہ ’اُم القرآن‘ہے اور’اُم الکتاب ‘اور’سبع مثانی‘ہے ۔ اس سورت کا ایک نام ’الواقیہ‘(بچانے والی)ہے ۔ کیونکہ یہ اپنے پڑھنے والے کو تمام آفات و امراض سے بچاتی ہے ۔محدث دیلمی نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص بھی اپنے گھر میں سورۂ فاتحہ اور آیت الکرسی پڑھے گااس دن وہ انسانوں اور جنات کی تکلیف سے محفوظ رہے گا۔ ذخیرہ احادیث میں اِس سورۃ کی فضیلت میں سب سے زیادہ احادیث مروی ہیں ۔’مشتے نمونہ از خروارے ‘ چندا حادیث برکۃًقارئین کرام کی نذر ہیں ۔ حضرت ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلایا لیکن میں نے کوئی جواب نہ دیا۔بعد میں آکر عرض کیا یا رسول اللہ میں مصروف ِ نماز تھا (اس لئے حاضرنہ ہوا) اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے اللہ اور اس کے رسول کے بلانے کو سنو اور جب وہ بلائیں تو حاضر ہوجائو۔‘‘ اس کے بعد فرمایا کیا میں تمہیں قرآن کی اس عظیم سورت کے بارے میں نہ بتائوں جومسجد سے نکلنے سے پہلے پڑھی جائے پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مسجد سے نکلنے کا ارادہ فرمایا تو میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ! آپ نے تو اس عظیم سورت کی تعلیم دینے کی بابت فرمایا تھا تو آپ نے فرمایا کہ وہ سورہ الحمد للہ رب العالمین ہے ۔اِس سورت کی سات آیتیں نماز میں بار بارپڑھی جاتی ہیں اور عظمت والا قرآن ہے جو مجھے عطافرمایا گیا ہے (بخاری شریف)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سفر میں کسی منزل پر ٹھہرے ،ایک آدمی آپ کے پہلو میں آیا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی طرف توجہ فرمائی اور فرمایا کیا میں تجھے قرآن کی سب سے زیادہ فضیلت والی سورت نہ بتائوں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو الحمدللہ رب العالمین پڑھ کر سنائی۔(المستدرک للحاکم) حضرت عبداللہ بن جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم غسل فرمارہے تھے ۔میں نے سلام عرض کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب نہ دیا۔ چنانچہ آپ چلنے لگے تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چلتا گیا،آپ اپنے گھر مبارک میں داخل ہوگئے اور میں مسجد میں چلا گیاچنانچہ میں مغموم اور رنجیدہ ہو کر بیٹھ گیاآپ جب میرے پاس تشریف لائے اور تین بار وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ فرمایاپھر فرمایا: اے عبداللہ بن جابر!میں تجھے قرآن کی بہترین سورت نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا ضرور بتائیے ۔ آپ نے فرمایا کہ الحمدللہ رب العالمین آخر تک (پوری سورت) پڑھا کرو۔(مسند احمد)روضۃ المتقین میں ہے :سورۂ فاتحہ اللہ تعالیٰ کے غضب وجلال کو روکتی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے کہ دس سورتیں دس چیزوں کو روک دیتی ہیں۔1۔سورۃ فاتحہ اللہ کے غصّہ کو روکتی ہے ۔2۔سورۃ یٰسین قیامت کی پیاس سے بچاتی ہے ۔3۔سورۂ دخان قیامت کی ہولناکی کو روکتی ہے ۔4۔سورۃ واقعہ فاقہ سے آڑبنتی ہے ۔5۔سورۃۂ ملک عذاب قبر سے نجات دیتی ہے ۔6۔سورۃکوثر جھگڑوں سے مانع ہوتی ہے ۔7۔سورۃکافرون موت کے وقت کفر سے بچاتی ہے ۔8۔سورۃ اخلاص نفاق کو دور کرتی ہے ۔9۔سورۃ فلق حاسدوں کے حسد سے اور۔10۔ سورۃ ناس وسواس سے بچاتی ہے ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام تشریف فرما تھے اور صحابہ کرام کا جم غفیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں حاضر تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سی نعمتیں عطا فرمائی ہیں جوکہ مجھ سے پہلے کسی پیغمبر کو نہیں دی گئیں پھر ارشاد فرمایا کہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ جبرئیل امین نے آکر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میں نے آپ کے پاس جو کتاب بھیجی ہے اس میں ایک ایسی سورت ہے کہ اگر وہ تورات میں ہوتی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت سے کوئی شخص گمراہ نہ ہوتا۔اگر انجیل میں ہوتی تو کوئی عیسائی بت پرست نہ ہوتا اگر زبور میں ہوتی تو کوئی شخص حضرت دائود علیہ السلام کی اُمت سے کوئی مفلس نہ رہتا،یہ اس لیے بھیجی گئی ہے تاکہ اس کی برکت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرے اور قیامت کے دن جہنم کے خوف سے اورعذاب سے خلاصی پائے ۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ وہ کون سی سورت ہے ؟ فرمایا وہ سورۃ فاتحہ ہے ۔پھر حضرت جبرائیل امین نے عرض کیا: مجھے اس پروردگار کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغمبر بنا کر بھیجا،اگر روئے زمین کے تمام دریاسیاہی اور تمام درخت قلم بن جائیں اور ساتوں آسمان اور زمینیں کاغذبن جائیں اور ابتدائے عالم سے لے کراب تک فرشتے اور تمام دنیا کے انسان اس کے فضائل لکھنا چاہیں تو اس کی فضیلت نہ لکھ سکیں۔ایک مرتبہ حضرت خواجہ عثمانِ ہارونی رحمۃ اللہ علیہ سورۃ فاتحہ کی فضیلت کے بارے میں گفتگو فرمارہے تھے کہ آپ نے ارشاد فرمایا، حضرت خواجہ یوسف حسین چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ میں ہے کہ جو کوئی سوتے وقت سورۂ فاتحہ اور سورۃاخلاص پڑھتا ہے ، وہ قیامت کے روز امینوں میں سے ہوگا اور پیغمبروں کے بعد سب سے پہلے وہ جنت میں داخل ہوگا اور جنت میں جاتے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزدیک ہوگا۔(وظائف سورہ فاتحہ صفحہ نمبر 19)