اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہماری زندگیوں پہ سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز سوشل میڈیا ہے۔ کسی بد لحاظ دوست، کسی بے تکلف رشتے دار، کسی اتھرے محلے دار، کسی بے دھڑک پڑوسی، کسی فسادی واقف کار، کسی ففے کُٹ ملاقاتی، کسی کھرولے بچے، کسی خواہ مخواہ ہنسانے والے مسخرے، ہر اچھی بری خبر پہ نظر رکھنے والے کسی اللہ واسطے کے مُخبر سے بھی زیادہ… ہمیں اس کی صرف ایک ہی ادا پسند ہے کہ جو باتیں ہم اپنی احتیاط، خوف، بلا وجہ کے معاشرتی جبر یا روایتی عوامی صبر کی بنا پر کسی سے نہیں کر پاتے، یہ منھ پھاڑ پھاڑ کے، چوک چوراہے میں کر ڈالتا ہے۔ حد تو یہ کہ جن باتوں پہ آنسو نہیں تھمنے چاہئیں تھے، یہ ان سے بھی مسکراہٹیں اور قہقہے کشید کر لیتا ہے۔ گزشتہ دنوں فرانس کے ایک خبطی وائرالوجسٹ کے چونکا دینے والے انٹرویو میں کیے گئے اس دھماکہ خیز انکشاف کہ کرونا ویکسین لگوانے والے تمام لوگ دو سال کے اندر اندر مر جائیں گے، پر تو ہمارے خطے کے لوگ سر سے پاؤں تک دہلے ہوئے تھے لیکن اپنا یہ برادر سوشل میڈیا فرما رہا ہے کہ اپنی بیگمات کا خیال رکھیں اور ان کی ویکسین آج ہی کروائیں ، ہو سکتا ہے دو سال والی بات درست ہو! پھر یہ بات بھی قابلِ ذکر بلکہ قابلِ فکر بھی ہے کہ یہ سوشل میڈیا صرف معلومات، اور تفریح تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ گاہے گاہے سیاست میں بھی زور کا منھ مارتا رہتا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اس پہ ایک صاحب نے کسی ’پٹواری‘کا یہ سنہری قول نقل کیا تھا کہ: اگر مہوش حیات کو ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ پر تمغۂ امتیاز مل سکتا ہے تو ہمارے میاں نواز شریف کو ’پاکستان نہیں آؤں گا‘ پر تمغۂ حسنِ کارکردگی کیوں نہیں مل سکتا؟… ساتھ ہی کسی ’یوتھیے‘ نے پاکستان کے جی ڈی پی، کرونا پالیسیوں کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان کی سعودی شہزادے کے ساتھ احرام کی دو چادروں میں ملبوس ملاقات والی تصویر لگا کے نیچے کیپشن میں لکھا: ’پہلے یہ ہوتا تھا کہ پچیس لاکھ کا پینٹ کوٹ، تین لاکھ کے جوتے، اکیس کروڑ کی گھڑی اور معمولی آدمیوں کا جتھا ہوتا تھا اور اب دو سفید چادروں میں ایک انمول آدمی۔ ‘ اسی بدتمیز سوشل میڈیا نے تصوف کے ادارے سے نسل در نسل وابستہ ہماری درجنوں قابلِ احترام اور خاندانی ہستیوں کو بھی حتی المقدور بدنام کرنے کی کوشش کی ہے، جن کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے مریدین اور معتقدمین کے اپنی مرضی سے دیے گئے ملین پاؤنڈ نذرانوں کو اپنے سابق حکمرانوں کی طریقت پہ عمل کرتے ہوئے لندن جیسے دل پذیرمقامات پہ محفوظ کیے بیٹھے ہیں۔ ایک من چلے نے دو عربوں کے درمیان بیٹھی مغربی خاتون کی تصویر کے ساتھ لکھ رکھا ہے: ’عالمِ اسلام کا کفر کے گرد گھیرا تنگ‘ … پھر آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اس طرح کے بیانات یا اعلانات کسی شریف آدمی کے کرنے کے ہیں کہ : نومبر ۲۰ء سے جون ۲۱ء کے درمیان پیدا ہونے والے بچوں کو ان کے والدین کی سوشل ڈسٹینس کی خلاف ورزی کرنے کی بنا پر برتھ سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جائے گا۔ ایک شوخے کی بد تہذیبی کا تو یہ عالم ہے کہ اس نے نیوزی لینڈ مساجد میں پچاس نمازیوں کو شہید کرنے والے ملزم کہ جسے چوبیس اگست کو پھانسی دیا جانا طے ہو چکا ، کی یہ خود ساختہخواہش نقل کی ہے کہ ملزم کا اصرار ہے اسے پاکستانی عدالتوں میں اپیل کا کم از کم ایک موقع ضرور فراہم کیا جائے۔ اسی طرح ایک ظریف کی یہ جرأت بھی ملاحظہ ہو: وطنِ عزیز میں فوج ایک کنبہ ہے، وکیل ایک کنبہ ہیں، جج ایک کنبہ ہیں، بیوروکریٹ ایک کنبہ ہیں، سیاست دان ایک کنبہ ہیں، ڈاکٹر ایک کنبہ ہیں، تنخوایں بڑھوانے والے استاد ایک کنبہ ہیں اور عوام محض ایک دُنبہ ہیں۔ دُنبے ہی سے ایک سوشل میڈیاکر کا بیان کردہ یہ لطیفہ یاد آیا کہ ایک شیخ زندگی میں پہلی بار کھانے کے لیے دُنبہ ذبح کروا رہا تھا۔ ساتھ ساتھ اس دُنبے کے ایک ایک عضو سے متعلق کی گئی پلاننگ سے اپنے اہلِ خانہ کو آگاہ کر رہا تھا کہ اس کے جگر اور گُردوں کی تو کڑاہی بنے گی۔ نرم گوشت کے کباب بنائے جائیں گے۔ سری پائے یخنی کیلئے الگ سے سنبھال لیے جائیں۔ اس کے چمڑے کی مَیں جیکٹ بنواؤں گا اور اس کی اُون سردیوں میں شال بنانے کے کام آئے گی۔ گوشت کے حصول سے مایوس قصائی، شیخ صاحب کی یہ ساری گفتگو سن سن کے بھرا بیٹھا تھا، جھٹ بولا: ’’ صاحب جی ایدی آواز وی ریکارڈ کر کے رکھ لوو، موبائل دی رِنگ ٹون دے کَم آوے گی!!!‘‘ پچھلے دنوں معروف کامیڈین فاروق قیصر کا انتقال ہوا تو کسی نے اسی سوشل میڈیا پر ان کی تین دہائیاں قبل اپنے پروگرام کلیاں کے لیے لکھی نظم شیئر کی، اس کا ایک بند دیکھ کر ہمارے منجمد ملکی حالات کا اندازہ کیجیے: میرے پیارے اللہ میاں! سوچ کے دل گھبراتا ہے بند ڈبوں میں خالص کھانا ان کا کتا کھاتا ہے میرا بچہ روتے روتے بھوکا ہی سو جاتا ہے! اسی سوشل دوست کی زبانی اپنے ہم وطنوں کی حیرانیوں، پریشانیوں اور تن آسانیوںکا بھی پتہ چلتا رہتا ہے۔ ایک ہم وطن نے اپنے قومی مزاج کی بابت لکھا کہ پاکستانی قوم زیادہ گرمی اور زیادہ سردی میں کام نہیں کر سکتی، اور جب موسم خوشگوار ہو تو ان کا ویسے ہی کام کرنے کو دل نہیں کرتا۔ دوسرے صاحب اس بات پہ پریشان ہیں کہ ساری زندگی باڈی بنانے میں گزر گئی، اور اب پتہ چلا کہ اینٹی باڈی بنانا تھی۔ ایک دوست نے تو صدر چیمبر آف کامرس کا یہ روح افزا تجزیہ شیئر کر کے جی خوش کر دیا کہ اگر تمام پاکستانی ۱۵۰ دن تک کوئی بھی غیر ملکی سامان نہ خریدیں تو پاکستان دنیا کا دوسرا امیر ترین ملک بن سکتا ہے!! اپنے اس دوست کی یہ بات سب سے زیادہ دل کو لگتی ہے کہ یہ لوگوں کے کچے پکے کلام کے ساتھ کبھی کبھی نہایت اچھے شعروں سے بھی مستفید کرتا رہتا ہے۔ آئیے آج اسی پلیٹ فارم پہ درج ایک دوست کے اس شعر کا مزہ لیتے ہوئے بات مکمل کرتے ہیں: تمہارے گاؤں کی مٹی لگی ہے پَیروں میں ہمارے گاؤں کے رستے خوشی سے پاگل ہیں!