عامر لیاقت حسین اب ہم میں نہیں رہے۔ ان کی پوری زندگی جس طرح ڈرامائی انداز میں گذری ان کی موت بھی اس انداز سے ہوئی۔ وہ صرف پرکشش ہی نہیں بلکہ بیحد پراسرار شخصیت کے حامل تھے۔ ان کی موت پر اب تک پراسرایت کی پرچھائیاں لہرا رہی ہے۔ اگر ان کا خاندان اجازت دیتا اور ان کا پوسٹ مارٹم ہوتا تو ان کی موت کا سبب بھی سامنے آجاتا مگر اب اس راز پر پردہ خاک پڑ گیا ہے۔ انہیںعبداللہ شاہ غازی کے مزار کے صحن میں دفن کیا گیا۔ وہ ایک مقبول شخصیت تھے۔ ان کے چاہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ان سے اختلاف رکھنے والے بھی کم نہ تھے۔ مگر جب موت آتی ہے تو وہ اپنے ساتھ احساس زیاں کے ساتھ ایک اور احساس بھی لاتی ہے۔ وہ احساس ہوا کرتا ہے غلطیاں معاف کرنے کا۔ سب کچھ بھلا دینے کا۔ یہ بھول ایک دھول بن کر یاداشتوں کو بھی اوجھل کردیتی ہے۔ اس دنیا میں کتنے پرکشش لوگ آئے۔ وہ ستاروں کی مانند جگمگائے۔ مگر جب خاک خاک میں مل گئی توان کی یاد بھی مٹتی گئی۔ اب کون کسے یاد کرتا ہے؟ مگر ہم کو تاریخ یہ سکھانے کی کوشش کرتی ہے کہ ہمیں ان اسباب کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جو افراد اور اقوام کے زوال کا باعث بنتے ہیں۔ عامر لیاقت حسین کے چاہنے والے اب اس بات پر اتفاق کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے دردناک انجام کا سب سے بڑا سبب سوشل میڈیا تھا۔ وہ سوشل میڈیا جو ایک پرکشش جال کی طرح ہے۔ وہ سوشل میڈیا انسانوں کو جس طرح اپنے آپ میں جکڑ کر انہیں لقمہ اجل بنادیتا ہے وہ سب کچھ ہمارے سامنے ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ آخر یہ سلسلہ کب رکے گا؟ قندیل بلوچ سے لیکر عامر لیاقت حسین تک کتنے انسانوں کا خون سوشل میڈیا اپنے ہاتھوں پر مہندی کی طرح سجا چکا ہے؟ اس سوال کا جواب بہت طویل اور تکلیف دہ ہے۔ مگر ہم کو اس سوال پر سوچنا ہوگا۔ ہم کو سوچنا ہوگا کہ آخر کب تک؟ کب تک سوشل میڈیا ہمارے باصلاحیت اور بہت خوبرو بچوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر عبرت کا نشان بناتا رہے گا؟ یہ کھیل خونی ہے۔ پب جی سے لیکر ٹک ٹاک تک سوشل میڈیا نے ہمارے معاشرے کو جس وبا میں مبتلا کردیا ہے وہ ہیروئن اور چرس سے کم خطرناک نہیں ہے۔ سوشل میڈیا سے دل بہلانا اور بات ہے مگر سوشل میڈیا کی لت لگ جانا اور بات ہے۔ ہمارے بچے بڑی تیزی سے سوشل میڈیا کے موالی بنتے جا رہیں۔حکومت اور ملکی اسٹیبلشمینٹ کو بھی سوشل میڈیا برا لگتا ہے مگر صرف اس وقت جب اس میڈیا پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ مگر انہیں سوشل میڈیا کے ان زہریلے اثرات کی ذرا بھی فکر نہیں جو اثرات دن رات مستقل طور پر ہمارے عوام اور خاص طور ہمارے نسل نو پر پڑ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا سے ایک طرح کی منظم ذہن سازی ہو رہی ہے اور وہ ذہن سازی کسی طور پر مثبت نہیں۔ مگر ہمارے سیاسی جماعتوں کو اقتدار کی فکر سے وقت ملے تو وہ اس بارے میں سوچیں کہ سوشل میڈیا کے سلسلے میں کیسے قوانین اور ضابطے بنائے جائیں؟ اپنے عوام کو کس طرح اس میڈیا کے منفی اثرات سے محفوظ رکھا جائے؟ اب تک اس سلسلے میں کوئی بھی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا کے عادی لوگ نہ صرف گھروں بلکہ اب دفاتر میں بھی اپنا وقت تباہ کر رہے ہیں۔ وہ بظاہر اپنے آپ کو پوری دنیا کے ساتھ جڑا ہوا سمجھتے ہیں جب کہ دراصل وہ نشے میں مبتلا لوگوں کی طرح اپنے آس پاس سے؛ اپنے ماحول سے؛ اپنے رشتوں ناتوں سے کٹتے جاتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ مکمل طور پر تنہائی کی تصویر بن جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح عامر لیاقت حسین ہوگئے تھے۔ ان کا خاندان بڑا تھا۔ ان کو چاہنے والا حلقہ اس سے بھی بڑا تھا۔ مگر وہ اپنے آبائی گھر کے چھوٹے سے کمرے تک محدود ہوگئے اور سمجھ رہے تھے کہ وہ پوری دنیا میں پاپولر ہو رہے ہیں۔ انسان سوشل میڈیا کے معرفت پاپولر ہوسکتا ہے مگر شہرت تنہائی کم نہیں کرتی۔ اکثر حالات میں شہرت انسان کو تنہا کردیتی ہے اوروہ شہرت جو سوشل میڈیا سے حاصل ہوا کرتی ہے اس میں تو تنہائی کا سامان کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا ہے۔اس لیے ایک بھرے شہر میں بہت مشہور شخص تنہا رہ گئے۔ سوشل میڈیا بہت تیز ، بیحد رنگین اور بظاہر حسین بھی ہے۔ مگر اس میڈیا میں جس طرح جھوٹ بولا جاتا ہے۔ اس میڈیا میں جس طرح عزتوں کو اچھالا جاتا ہے۔ اس میڈیا میں جس طرح افواہوں کو اڑایا جاتا ہے۔ وہ سب کچھ بہت منفی اور بیحد نقصان دہ ہے۔ کیا ہمیںنہیں معلوم کہ سوشل میڈیا پر کتنی غلط اور بے بنیاد باتیں ایک طے شدہ منصوبے کے ساتھ پھیلائی جاتی ہے اور ان باتوں کی وجہ سے لوگ کس طرح متاثر ہوتے ہیں۔ ابھی گذشتہ دن کی بات ہے کہ جب عامر لیاقت حسین کو سپرد خاک کیا گیا اور ان کی قبر پر پڑے ہوئے پھول ابھی مرجھائے بھی نہیں کہ سوشل میڈیا پر ایک اور خبر نے تلاطم پیدا کرنے کی کوشش کی۔ وہ خبر پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کے انتقال کے بارے میں تھی۔ سابق صدر پرویز مشرف ایک عرصے سے علیل ہیں۔ وہ خطرناک مرض میں مبتلا ہیں۔ اس وقت ان کی حالت بہت تشویشناک ہے۔ مگر وہ ابھی تک زندہ ہیں۔ ان کی وفات کے بارے میں ایک افواہ پھیلا کر ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کی گئی۔ بہت سارے لوگ پرویز مشرف کے بارے میں ایسی باتیں کرنے لگے، جن باتوں کے لیے وہ وقت مناسب نہیں تھا۔ پرویز مشرف کے حوالے سے پہلی غلط خبر کہاں سے آئی؟ اس بات کا تو اب تک کسی کو نہیں معلوم مگر سب پتہ ہے کہ منٹوں میں یہ خبر سوشل میڈیا کے معرفت جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور سوشل میڈیا پر پیدا کی جانے والی اس جھوٹی خبر نے پرویز مشرف کے خاندان کو مجبور کردیا کہ وہ پرویز مشرف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے وضاحت پیش کریں کہ اس وقت ان کی حالت کیسی ہے؟ یہ بات صرف پرویز مشرف تک محدود نہیں ہے۔ سوشل میڈیا سابق صدر آصف علی زرداری کے بارے میں کئی بار ایسی جھوٹی افواہ اطلاع بنا کر پیش کر چکا ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ کریڈٹ لینے اور لائکس Likes سمیٹنے کے چکر میں بھول جاتے ہیں کہ ایسی کوئی بھی خبر شیئر کرنے اور آگے بڑھانے سے قبل اس کی تصدیق کی جائے۔ سوشل میڈیا ایک ایسا سفر ہے جس کی کوئی منزل نہیں۔ہمارے معاشرے میں یہ میڈیا جس طرح لوگوں کو ایک طرح کے جنون میں مبتلا کر رہا ہے۔سوشل میڈیا ایک ایسا قاتل جال ہے جو اپنی کشش کی وجہ سے اپنے شکار کو اپنی مرضی سے پھنس جانے کے کیے مجبور کرتا ہے اور اس کے بعد اس کو بے دردی سے قتل کردیتا ہے۔ لوگ چلے جاتے ہیں، ان کے صرف نام رہ جاتے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد وہ نام بھی مٹ جاتے ہیں۔