ہمارے اردگرد ہمہ وقت تبدیلی کا غلغلہ ہے۔ اور 2018ء کے الیکشن کے بعد تو پوری قوم تبدیلی کے انتظار میں ہے۔ ہم یہ بھی اکثر سنتے رہتے ہیں تبدیلی آنی چاہیے۔ تبدیلی آ کے رہے گی۔ وغیرہ وغیرہ اور اس لمحے شاید ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری زندگیاں مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ ہمیں خبر بھی نہیں ہو رہی اور ہم کتنے بدلتے جا رہے ہیں۔ ہمارے طور طریقے رہن سہن کے انداز سوچ‘ رویے سب کچھ بدل چکے ہیں اور ہماری زندگیوں میں تبدیلی لانے والا کوئی اور نہیں سوشل میڈیا ہے۔ جی ہاں!سوشل میڈیا نے جس طرح ہمارے سماجی رویوں کو تبدیل کیا ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ دنیا بھر میںیہ اب دلچسپی کا موضوع ہے۔ اس پر ریسرچ ہو رہی ہے کس طرح دنیا جب سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر گلوبل ویلج بنتی ہے تو رویے‘ طور طریقے ‘ انداز اطوار سب کچھ تبدیلی کے زیر اثر آ جاتا ہے۔ میں سماج اور سماجی رویوں کی ایک ادنیٰ سی طالب علم ہوں اور اس لحاظ سے یہ موضوع ہمیشہ مجھے دلچسپ لگتاہے کیونکہ اس میں سوچنے‘ سمجھنے اور ریسرچ کرنے کو بہت کچھ ہے۔یہ موضوع بہت ہمہ جہت ہے۔ ایک کالم میں تو اس کے تمام پہلو احاطہ تحریر میں نہیں لائے جا سکتے۔ ابھی اس پر لکھنے بیٹھی ہوں تو مجھے خیال آیا کہ ابھی جب میں لنگوسٹکس کے آخری سمسٹر میں تھی تو ہماری کلاس نے ایک پریزنٹیشن اس موضوع پر بھی دی کہ how Social Media has Changed the English Language سوشل میڈیا پر استعمال ہونے والی انگریزی اس انگریزی سے قطعاً مختلف ہے جسے ہم سٹینڈرڈ انگلش کہتے ہیں جس گرامر کے اصولوں‘ سپیلنگز اور رموز و اوقاف کا خیال بدرجہ اتم رکھا جاتا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر استعمال ہونے والی انگریزی ان تمام پابندیوں سے آزاد ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر استعمال ہونے والی انگلش Acrony اور Abbreviation سے بھری ہوتی ہے ہیپی برتھ ڈے کو انگریزی حروف تہجی کے ساتھ HBDلکھا جاتا ہے یہ صرف ایک مثال ہے سوشل میڈیا سپیلنگ پر پھر کبھی لکھوں گی یہ موضوع بہت دلچسپ ہے اور ایک کالم میں کہاں سما سکتا ہے۔ زبان کے معاملے کے علاوہ سوشل میڈیا نے جہاں ایک طرف دور دور کے بسنے والے انسانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہے وہیں آف لائن زندگی میں انسانوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔ دس پندرہ سال پیشتر دیکھیں تو ہم جس طرح سے دوستوں اور رشتہ داروں سے سماجی تعلقات رکھتے تھے اب وہ طور طریقے بدل چکے ہیں۔ ہماری آن لائن زندگیاں ہماری آف لائن زندگیوں سے جو کہ اصل اور حقیقی زندگیاں ہیں۔ بالکل مختلف ہیں میں ایک ایسی دوست کو جانتی ہوں جو آن لائن ہمہ وقت ایکٹو اور ’’دوستوں‘‘ میں گھری ہوئی دکھاتی دیتی ہیں۔ ان کی پوسٹوں پر کمنٹس لائکس کی بھر مار سے ایسا لگتا ہے کہ ان کے چاہنے والے اور دوست بے شمارہیں وہ بھی ہر دوسرے میسج میں شکریہ احباب اور تھینکس فرینڈز کا بکثرت استعمال کرتی ہیں کچھ عرصہ پہلے ان کی والدہ کی وفات ہوئی میں تعزیت کے لیے گئی تو وہ خود بخار میں پھنک رہی تھی ایک ملازمہ موجود تھی اور والدہ کی وفات پر آئے ہوئے رشتہ دار بھی جا چکے تھے والدہ کی تازہ تازہ جدائی‘ تنہائی بیماری نے مل کر ایک عجیب سی صورت بنا دی تھی۔ میں نے کچھ کامن فرینڈز کے نام لیے کہ وہ تعزیت کے لیے آئے۔ میری دوست نے نفی میں سر ہلایا اور کہا کہ آج کل کوئی کسی کا نہیں بنتا بس لوگ فیس بک پر ہی تعزیت کر دیتے ہیں۔ کوئی فون تک کرنا گوارا نہیں کرتا‘‘اور ایسا کہتے ہوئے‘ ان کی انگلیاں اپنے ان گنت فیس بک فرینڈز کے ساتھ لائکس لائکس بھی کھیل رہی تھیں۔ یعنی آن لائن جو انسان دوستوں کی محبتوں میں گھرا ہوا دکھائی دیتا ہے اپنی حقیقی آف لائن زندگی میں وہ تنہا اداس اور حقیقی دوستوں کی کمپنی کو ترسا ہوا ہے۔ ایک ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ فیس بک پر بہت زیادہ ایکٹو نظر آنے والے لوگ اپنی زندگیوں میں زیادہ تنہا ہوتے ہیں یہ بھی فیس بک کلچر ہے کہ ہم ایک دوسرے کی تصاویر پر تعریفی کلمات لکھتے نہیں تھکتے لیکن حقیقی زندگی میں ‘ میرا مشاہدہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو کمپلیمنٹری ریمارکس کم ہی دیتے ہیں شاید ایک دوسرے کو سراہنے کا حوصلہ ہی نہیں پاتے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے انسانی رشتوں کے درمیان آپس کے رویوں کو بہت بدل دیا ہے۔ اب خاندان کے چھوٹے بڑے بزرگ سب فیس بک پر ایک دوسرے کے فرینڈز ہیں بعض اوقات فیملی کے ینگسٹرز ایسی پوسٹیں لگاتے ہیں کہ چند سال پیشتر یہ تصور بھی نہیں تھا کہ نوجوان اپنے بزرگوں کے سامنے ان موضوعات پر کوئی بات کریں گے ایک جھجھک اور حجاب کا پردہ ضرور حائل تھا مگر اب بزرگ نہ صرف ان پوسٹوں پر لائک کرتے ہیں بلکہ کمنٹ بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں ایک اور بات جو میرے مشاہدے میں آئی وہ یہ کہ لوگ سوشل میڈیا پر بہت سیاسی ہوتے جا رہے ہیں اور اپنے اپنے سیاسی نظریے کو دوسرے پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ گالی گلوچ دشنام طرازی ایک دوسرے پر الزامات لگانا اب بہت عام ہے اور یہ سلسلہ بعض اوقات اتنی شدت اختیار کر جاتا ہے کہ لوگ اپنے اچھے دوستوں کو کھو دیتے ہیں۔ انٹر نیٹ پر پڑھتے ہوئے ایک اور ریسرچ میری نظر سے گزری جس میں بتایا گیاکہ سیاسی اختلاف رائے کو لوگ اپنی حقیقی یعنی آف لائن زندگی میں کھلے دل سے قبول کرتے ہیں جبکہ وہی افراد آن لائن سوشل نیٹ ورکس پر نظریاتی اور سیاسی اختلاف رائے پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ چونکہ اختلافی رائے لکھے ہوئے الفاظ یا پوسٹ کی صورت میں سب کے سامنے ہوتی ہے لوگ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور اپنے اندر کے رنج اور غصے کو نکالنے کے لیے زیادہ سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہیں اور پھر یہ سلسلہ دونوں طرف سے چلتا رہتا ہے۔ جو انٹرنیٹ صارفین ہمہ وقت آن لائن اسی طرح کے ماحول میں رہتے ہیں وہ مسلسل کڑھنے کی وجہ سے کئی نفسیاتی عوارض اور بلند فشار خون کے مریض بن جاتے ہیں۔ پہلے بھی لوگ سیاسی اختلافات رکھنے والے دوستوں سے ملتے تھے لیکن سوشل میڈیا نے سیاسی عناد کو زیادہ ہوا دی ہے اور سماج میں ایک سیاسی نظریات پر مبنی پولرائزیشن کو جنم دیا ہے۔ عدم برداشت کی وجہ سے لوگ سیاسی اور نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کو فیس بک پر بلاک کر دیتے ہیں۔ یوں آن لائن ان فرینڈ ہونے والے حقیقی زندگی میں اچھے دوستوں کو بھی کھو دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور سماجی رویے ایک مسلسل ٹاپک ہے اور میں اس پر لکھتی رہوں گی۔سردست بس یہی کہنا ہے کہ آج کے جدید انسان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ اپنی آن لائن اور آف لائن زندگی میں کس طرح توازن برقرار رکھے کہ خوب صورت سماجی روایات اور رویے اپنا وجود برقرار رکھ سکیں۔