سیاست کی لڑائی میں اخلاقیات کو مات ہو چکی ہے۔انسانی معاشرے میں اخلاقیات وہ بنیاد ہے جس کو منہدم کرنے کے بعد ہم کسی خیر کی توقع نہیں رکھ سکتے۔سیاست کی سطحی لڑائی میں ہم نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا اور اس بار کے بعد ہم کس جیت کی توقع رکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے محاذ پر سیاسی جماعتوں کے مخالفین اور حمایتوں میں گھمسان کا رن پڑا ہے اور اس جنگ میں اخلاقی اقدار کو روند دیا گیا ہے۔ جی ہاں سیاسی جماعتوں سے مراد وہی ن لیگ اور پی ٹی آئی ہی ہیں جن کے حمایتی اور مخالفین ایک دوسرے پر گند اچھال رہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔!زبان و بیان کاتو ذکر ہی کیا۔ کبھی خیال آتا ہے کہ سوشل میڈیا کے محاذ پر بیٹھے سیاسی جماعتوں کے یہ تنخواہ دار کارندے دن رات ایسے ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور دشنام طرازیوں سے بھری ایسی ایسی غلیظ پوسٹیں بنانے اور اپ لوڈ کرنے میں مصروف ہیں کہ جن کا تذکرہ تہذیب کے دائرے میں رہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ حال ہی کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو سیاست میں زبان درازی گالی گلوچ اور بدزبانی کا رواج موجودہ سیاسی رہنمائوں نے ڈالا۔ یہی کلچر ان کی پارٹیوں میں نیچے تک پروان چڑھا۔ یعنی بدزبانی‘ بدتہذیبی عدم برداشت !ذرا پیچھے کی طرف جائیں تو 90کی دہائی میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے خلاف صف آراء دکھائی دیتی تھیں۔ ن لیگ کے جلسوں میں شیخ رشید محترمہ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کے لیے اخلاقیات سے گری ہوئی گندی زبان استعمال کرتے تھے اور ظاہر ہے ن لیگ کی قیادت کی شہہ پر۔ آج جب مریم نواز پر اسی انداز میں گند اور کیچڑ اچھالا جاتا ہے تو یاد کروانے والے میاں صاحب کو 90کی دہائی میں ان کا انداز سیاست یاد کرواتے ہیں۔ اور بتاتے ہیں کہ میاں صاحب یہ ہوتا ہے مکافات عمل۔ نوے کی دہائی میں جس طرح الیکشن کی مہم چلتی تھی اور جو انداز سیاست تھا وہ آج کے ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے ہتھیار سے لیس دور سے قطعاً مختلف تھا۔ انتخابی سیاست کے زمانہ میں ہی سیاسی مخالفین ایک دوسرے کی تضحیک کرتے ہیں اور ان کے منفی پوائنٹ اجاگر کرتے ہیں اس دور میں انتخابی سیاست کے لیے جلسے جلوس کرنا پڑتے اور الیکشن مہم انہی جلسے جلوسوں تک محدود ہوتی۔ ہاں ایک سرکاری ٹی وی تھا بہت ہوا تو اس پر پیڈ کونٹینٹ(Paid Content)چلا کر اپنی پارٹی کا سیاسی منشور اجاگر کیا جاتا۔ منفی پروپیگنڈا ہو یا مثبت چیزیں کچھ حدود و قیود میں رہتی تھیں۔ لیکن آج وقت بدل چکا ہے یہ سوشل میڈیا کا دور ہے جہاں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے انتخابی سیاست کے عمل کو سہولت سے آراستہ کیا وہیں اسے اخلاقی قدروں سے آزاد کر دیا۔ اس پلیٹ فارم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لوگ شناخت کے بوجھ سے آزاد ہو کر جس پر جو چاہے الزام لگائیں۔ جس کی ذات کے چاہے بخیے ادھیڑیں اور جس کو چاہے سوشل میڈیا کے چوراہے پر ننگا کر دیں۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ کون ان لوگوں کو اخلاقیات سکھائے گا۔؟کون ان کی تہذیبی اور ذہنی تربیت کرے گا۔؟اور وہ سیاستدان جنہوں نے سوشل میڈیا پر گند اچھالتی ایک نسل کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ کیا وہ اس نقصان کی ذمہ داری اٹھائیں گے۔!خاتون ہونے کے ناتے مجھے زیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب سیاسی مخالفین سیاسی مخالفت کے نشے میں دوسروں کی بیٹیوں بہنوں بیویوں یہاں تک کہ مائوں کو بھی نہیں بخشتے اس کالم کا محرک ایک ایسی ہی پوسٹ ہے جو میری نظر سے فیس بک پر گزری۔ خدا کے لیے کسی بریک پر پائوں رکھیں۔ کیا ہو گیا وہ سماج‘ وہ معاشرہ جہاں سمجھا جاتا تھا کہ مائیں سانجھی ہوتی ہیں۔!آج لوگ ان لفظوں کے معنی بھول گئے ہیں کہ ماں کیا ہوتی ہے اور سانجھا ہونا کیا ہوتا ہے! سماجی دانشور معاشرے کے اس بدلتے ہوئے رویے اس اخلاقی گراوٹ کا کیا علاج تجویز کرتے ہیں۔ اس پر سوچنا چاہیے اور اس رجحان پر بند باندھنا چاہیے سیاسی قیادت پر بھی بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے فالورز کی سیاسی تربیت اس انداز میں کریں کہ وہ مخالفت میں حد سے نہ گزریں۔ لیکن سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ سیاسی قائدین کی ذہنی اور تہذیبی تربیت کون کرے گا۔؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا آج کے دور میں ذرائع ابلاغ کا موثر اور سستا ترین ذریعہ ہے اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کی طاقت کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سوشل میڈیا پر بہتر انداز میں اپنی انتخابی مہم چلا کر کامیابی کی حیران کن مثال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قائم کی۔ ٹرمپ کی سیاسی حریف ہیلری کلنٹن ہر لحاظ سے ٹرمپ سے بہتر صدارتی امیدوار سمجھی جاتی تھیں۔ پہلے بل کلنٹن کی اہلیہ اور پھر امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے ہیلری امریکہ کے علاوہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی مقبول تھیں پروقار‘ سنجیدہ اور مہذب ہیلری کے مدمقابل ٹرمپ کو عورتوں کا رسیا‘ غیر سنجیدہ اور بڑبولا شخص سمجھا جاتا تھا لیکن صدارتی الیکشن میں ٹرمپ نے ہیلری کو شکست دے کر امریکہ سمیت دنیا بھر کو حیران کر دیا امریکی الیکشن کے مبصرین آج بھی اپنے تجزیوں میں یہ لکھ رہے ہیں کہ ٹرمپ کی جیت اس لیے ممکن ہوئی کہ سوشل میڈیا پر ٹرمپ کی ٹیم نے زیادہ agressiveانداز میں الیکشن مہم چلائی یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ جس انداز کی یہ الیکشن کمپین سوشل میڈیا پر چلائی گئی اسے ڈرٹی پولیٹکس کا نام بھی دیا گیا۔Mark schaefer اپنے مضمون Social Media Technology and dirty politcs. میں لکھتے ہیں کہ اوبامہ کی صدارتی الیکشن کمپین میں بھی سوشل میڈیا کا استعمال ہوا تھا مگر اس وقت جس انداز میں استعمال کیا گیا اس سے یہ پہلو اجاگر ہوا کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا سیاسی پیغام اور منشور کی ابلاغ میں اہم اور موثر ترین ذریعہ ہیں۔اور اس کمیونی کیشن سے ہم کیسے سماج کو جوڑتے ہیں۔ انہوں نے Communicate and Uniteکی اصطلاح استعمال کی جبکہ سوشل میڈیا پر ٹرمپ کی الیکشن مہم جس بدصورتی کو ہمارے سامنے لائی وہ ہے۔Attack and disrupt ایسا ہی کچھ ہمارے ہاں ہوتا نظر آتا ہے کہ سیاسی مخالفین پر اس طرح حملے کرو کہ سماج میں انتشار پیدا ہو۔ اخلاقی اقدار کو فراموش کر کے سطحی سیاست کے لیے ایک دوسرے پر اس طرح سے گند اچھالا جا رہا ہے۔ جھوٹی سچی کہانیاں اس طرح سے پھیلائی جا رہی ہیں کہ معاشرے میں انتشار بکھرائو اور عدم برداشت کی کیفیت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔سیاست اگر سماج اور اس کے رہنے والوں کی بہتری اور سلجھائو سے جڑی ہوئی نہیں تو افسوس ایسی سیاست پر۔ اقبال نے تو دین سے دور سیاست کو چنگیزی کہا تھا۔ مگر مجھے کہنے دیجیے کہ سیاست اگر اخلاقیات سے جدا ہو جائے تو پھر یہ سوائے کیچڑ اور گند کے اور کیا ہے۔؟؟