کرونا وائرس سے بچاءو کے حفاظتی اقدامات کے تحت سکول کالج‘ تعلیمی ادارے بند ہو گئے ہیں ۔ آج دانیال کے سکول میں والدین سے ملاقات کا دن تھا ۔ جسے پیرینٹ ٹیچرمیٹنگ کہتے ہیں ‘ کل تک تو خصوصی ہدایات تھیں کہ آنے والے ملاقاتی منہ پر ماسک چڑھا کر آئیں لیکن آج صبح معلوم ہوا کہ پی ٹی ایم‘ کو کینسل کر دیا گیا ہے یہ خبر تو رات ہی کو آ چکی تھی کہ تعلیمی ادارے 5اپریل تک بند رہیں گے ۔ ان حالات میں جب ہر طرف سے کرونا کے پھیلاءو کی خبریں آ رہی ہیں ۔ ہلاکتوں کے اعداد و شمار ٹی وی چینلز بڑھ چڑھ کر سنا رہے ہیں اور جس لب و لہجہ میں نیوز اینکرز یہ خبریں سناتے ہیں اس سے سننے والوں کا واقعتاً تراہ نکل جاتا ہے ۔ امام دین گجراتی معصوم اور بھولا بھالا شاعر جس نے یہ درخواست سرکار سے کی تھی کہ حکومت کو چاہیے جہازوں کو روکے ۔ یہ ستے ہوءوں کا تراہ کاڈتے ہیں اور یہاں انہی الفاظ میں ذرا تبدیلی کے بعد گزارش کرتے ہیں کہ پیمرا کو چاہیے نیوز اینکرز کو روکے ۔ کیونکہ یہ جس انداز میں خبریں پڑھتے ہیں سننے والے خوف اور ہیجان میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ ان حالات میں بہت زیادہ ضرورت ہے کہ لب و لہجہ میں اتنی سنسنی پیدا نہ کریں اور خبروں کے پس منظر میں چلنے والی موسیقی کی بھی خوفناک ڈن ڈن کو نرم اور لطیف آواز کے ساتھ بدل دیں تاکہ خبریں سننے والے کرونا سے بچتے بچتے اینگزاءٹی کے مریض نہ بن جائیں ۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ یہ نیوز چینلز پر بیٹھے ہوئے نیوز اینکرز اس انداز میں کیوں خبریں پڑھتے ہیں کہ جیسے سننے والوں کے دماغ پر ہتھوڑے برسا رہے ہوں ۔ ان کا کام خبر سنانا اور خبر پہنچانا ہے ناکہ لوگوں کو ہیجان میں مبتلا کرنا ۔ تمام ٹی وی چینلز پر یہی انداز راءج ہے سمجھ سے باہر ہے کہ اس نہج پر تربیت کرتے ہوئے کون سے مقاصد کو سامنے رکھا گیا ہے ۔ ہمارے ہاں جس طرح اینگزاءٹی کے مریضوں کی شرح بڑھ رہی ہے بلکہ ہر شخص ہی اینگزاءٹی میں مبتلا نظر آتا ہے ۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ 24;47;7نیوز چینلز خبروں کے ہتھوڑے سننے والوں کے سر پر مارتے رہتے ہیں ۔ ایک وہ وقت بھی تھا جب سرکاری ٹی وی ہی پردھان ہوتا‘ چونکہ خبر پہنچانے کی ذمہ داری خود سرکار کی تھی تو وہ قومی مفاد کی چھلنی سے چھان چھان کر اچھی اچھی خبریں ہی عوام تک پہنچاتے اور خبریں پڑھنے والی کیا شائستہ اطوار شخصیات تھیں ۔ ایک نام عشرت فاطمہ کا ہے ۔ جو آج بھی لوگوں کو یاد ہے کہ ان کی خبریں سنتے ہوئے یوں لگتا کہ الفاظ کا بہاءو ایک ندی کی طرح محو خرام ہے ۔ ٹھہراءو رچاءو اور سبھاءو کے ساتھ ایک ایک لفظ نرم لہجے میں ادا ہوتا اور سامعین کی سماعتوں میں اترتا تھا ۔ اس دور میں خبریں پڑھنے والوں کو نیوز کاسٹر کہا جاتا تھا ۔ آج خبریں پڑھنے والوں کو نیوز اینکر کہا جاتا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سماج میں حالات کے حوالے سے جو بے چینی اور ہیجان آج پایا جاتا ہے وہ ان دنوں نہیں تھا ۔ سو کرونا وائرس کے حوالے سے جو حفاظتی تدابیر حکومت کر رہی ہے اس میں ہمارے اس مشورے کو بھی شامل کر لیجیے کہ کرونا وائرس کی خبروں کو پڑھتے ہوئے‘ ہتھوڑا مار انداز سے گریز کریں اور ان خبروں کے پس منظر میں خوفناک ڈن ڈن والی موسیقی بھی نہ لگائی جائے ۔ مفاد عامہ کے لئے حفاظتی تدابیر کے پیغامات بغیر کسی سنسنی کے ٹیلیویژن پر نشر کئے جائیں ۔ یقین جانیں کمزور اعصاب والے افراد پر کرونا وائرس کے ممکنہ حملے سے پہلے ہی اینگزاءٹی کا حملہ ہو چکا ہے اور ذہنی دباءو ڈیپریشن ایسی کیفیات ہیں جس میں جسم کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے اور یہ مدافعتی نظام قدرت کی طرف سے انسان کو اندر سے بیماریوں کے حملے سے بچاتا ہے ۔ مدافعتی نظام کمزور ہو جائے تو ظاہر ہے کہ بیماریوں کے حملے بھی آسان ہو جاتے ہیں ۔ مدافعتی نظام انسان کو عطا کیا گیا قدرت کا عظیم تحفہ ہے ۔ اس کی حفاظت کرنی چاہیے، اس کو مضبوط بنانے کے لے تدابیر کرنی چاہئیں ۔ صحت کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے ۔ روزانہ سیر اور جسمانی سرگرمی کو اپنے معمول کا حصہ بنائیں ۔ اپنی روحانی نمو کا اہتمام بھی نماز اور اللہ کے ذکر کے ساتھ لازمی کریں ۔ درود پاک پڑھنا مستجاب عبادت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو پر امید رکھیں ۔ خوف ‘ خدشوں اور وسوسوں سے خود کو بچا کر رکھیں ۔ یہ تمام ذہنی کیفیات بھی انسان کے لاشعور میں موجود ہوتی ہیں ۔ میڈ ٹیشن کریں اور خود کو ان تمام منفی احساسات سے آزاد کریں ۔ بیماری کا خوف بعض اوقات بیماری سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے ۔ بعض تو بیماری سے پہلے ہی خوف میں مبتلا ہو کر خود کو مریض کر لیتے ہیں ۔ کرونا وائرس کے حوالے سے ملک بھر میں ہنگامی صورت حال نافذ ہو چکی ہے ۔ اس کی حفاظتی تدابیر کے حوالے سے معلومات اور پیغامات کا ایک سیلاب امڈا ہوا ہے ۔ اسی لئے میں نے ایسی کوئی بات نہیں دھرائی ۔ یہ تمام جسمانی طور پر کرنے کی تدابیر ہیں ۔ جو ٹپس میں نے آپ کو دی ہیں اس سے آپ اپنے جسم اور اپنی زندگی کے کنٹرول روم کو مضبوط بنائیں گے ۔ یعنی اپنی سوچ اپنے شعور اور لاشعور کو کرونا کے خوف اور ہیجان میں مبتلا نہ ہونے دیں اور قوت مدافعت کو مضبوط کریں ۔ کرونا وائرس سے بچاءو کے لئے حفاظت کی تمام تدابیر کرتے رہیں بیماری کے خوف میں مبتلا ہو کر نہیں بلکہ خوش امیدی اور بہترین صورت حال کے یقین کے ساتھ ۔ ! سوچ کا یہ باریک سا فرق ہی ‘ بہت بنیادی فرق ہے ۔