عین انصاف کی وجہ سے فرینک کارپو کو دنیا کا رحم دل جج کہا جاتا ہے۔پہلے ایسی مثالیں ہم اپنی تاریخ سے لے کر بیان کرتے تھے اب وقت بدل گیا ہے۔تاریخ ایک مسافر ہے جو نیک دل لوگوں میں گھر کرتی ہے سو یہ مسافر ہماری ارض سے کب کا رخصت ہو چکا۔جس معاشرے سے رحم اور انصاف رخصت ہو جائیں وہاں سے یہ مسافر ہمیشہ کے لیے کوچ کر جاتا ہے۔آج کل اس مسافر کا قیام سات سمندر پار ہے اور ایک دو صدیوں سے وہیں مقیم ہے۔فرینک کارپو اٹلی کا رہنے والا ہے مگر آج کل انصاف امریکہ میں کر رہا ہے۔ہمارے اس لیول کا ہی منصف ایم آر کیانی تھا جو ناانصافی کی زمین پر انتقال کر گیا تھا۔وہ چاٹگام کے شہر میں تھے جب انہیں موت کا بلاوا آیا۔یوں وہ مشرقی پاکستان کا سانحہ دیکھنے نو سال قبل انتقال کر گئے تھے۔ہماری اپنی زندگی میں چند ایسے سانحے ہوئے ہیں جو قطعا ناگزیر نہیں تھے ان سے بچا جا سکتا تھا۔مگر وہ راہ انصاف کی راہ تھی جو کسی کو دیکھنی بھی گوارہ نہیں تھی۔پہلا سنحہ مشرقی پاکستان کا تھا۔یہ سانحہ ہمارے لیے اس بھی تکلیف دہ تھا کہ اس سے متاثر ہونے والا خود ہمارا خاندان بھی تھا۔ہمارے بڑے بھائی جو سقوط ڈھاکہ کے وقت ڈھاکہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے اور دو سال کے لیے نوے ہزار قیدیوں میں شامل تھے جو انڈیا کے مختلف کیمپوں میں قید کاٹ رہا تھا۔تب ہم پانچویں کلاس میں تھے۔جب سال بعد برادر بزرگ واپس آتے تو بنگال کا ذکر ہمیں کوئی طلسم ہوش ربا لگتا۔ ڈھاکہ، چٹاگانگ، سلہٹ شہر ہمیں لاہور کراچی سے پیارے لگتے۔ڈھاکہ اسلام آباد سے اچھا لگتا۔دریائے ہگلی کا ذکر سنتے تو اپنے دریا اس پر قربان کرنے کو جی چاہتا۔انناس کی خوشبو سے ہمارا چھوٹا سا کچا صحن کٹھی مٹھی خوشبو سے بھر جاتا۔ہمارے اساتذہ برادر بزرگ سے مل کر خوش ہوتے تو یہی خیال آتا ایسا علم جس پر اساتذہ بھی فدا ہوں کیسی اعلی درسگاہ کی دین ہے۔آہستہ آہستہ ہمیں معلوم ہوا کہ ڈھاکہ یونیورسٹی جہاں برادر بزرگ زیور ِ تعلیم سے آراستہ ہو رہے تھے باغیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ہمیں ان باغیوں کی سیاسی بصیرت پر رشک آتا۔ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مجیب کے چھ نکات جن پر ہمارا خون کھول اٹھتا تھا اسی یونیورسٹی کے اکنامکس کے شعبہ کے ایک استاد سبحان رحمان کی ذہنی کاوش تھی۔ویسے ان کے چھ نکات ہماری اٹھارہویں ترمیم سے کم اختیارات کا مطالبہ کرتے تھے۔یہاں یہ اختیارات رضا ربانی نے ایسے نکلوائے جیسے مکھن سے بال نکالا جاتا ہے۔ہم نے اس درسگاہ کے بارے میں ایسے ایسے قصے سنے کہ جی چاہے کہ ایک دفعہ وہ درسگاہ دیکھ ہی لیں۔مغربی ممالک میں تو یہ ایک عام سی بات ہے کہ ایک حکمران حکومت ختم ہونے کے بعد اپنی پرانی ملازمت یا کاروبار میں دوبارہ شریک ہو جائے۔ہمارے ملک میں یہ ایک انہونی سی بات لگتی ہے۔ایم این ہدیٰ اس یونیورسٹی کے معاشیات کے شعبہ کے سربراہ تھے۔ایوب خان نے ان کو گورنر مشرقی پاکستان نامزد کیا۔ان کا پورا نام مرزا نذرل ہدٰی تھا۔وہ بعد بنگلہ دیش کے تیسرے نائب صدر اور وزیر خزانہ بھی رہے۔وہ فی الاصل ایک نابغہ تھے۔اکیاون میں ریڈیو پاکستان ڈھاکہ سے انہوں نے Dabate with Huda کا سلسلہ شروع کیا۔ایوب نے انہیں پلاننگ کمشن کا ممبر بھی بنایا تھا۔منعم خان کے بعد انہیں گورنر مشرقی ہاکستان لگایا مگر انہتر میں یحیٰی خان کے مارشل لا کے اعلان کے ساتھ ہی وہ مستعفی ہو گئے اور واپس ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات میں آ گئے اور درس و تدریس شروع کر دی۔ایسی مثالیں ہم مغرب میں دیکھتے تھے اور ہیں۔ یہ کلی بھی اس گْلستانِ خزاں منظر میں ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی ان کا ایک اور بڑا تعارف یہ بھی تھا کہ وہ مولوی تمیز الدین کے داماد تھے۔ان کی بیگم کلثوم سینٹرل یونیورسٹی کے بانی مبانی چانسلروں میں سے تھیں۔ ادھر نظر کرتے تھے تو ایوب خان کی طرح ان کے جانشین یحییٰ خان بھی سقوطِ مشرقی پاکستان کے وقت صدر، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، وزیرِ دفاع و وزیر خارجہ تھے۔جب ایوب خان کو چیف آف آرمی سٹاف بنا تب متوقع جنرلز میں جنرل اشفاق المجید کا نام بھی تھا جو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے۔وہ بھی چیف آف آرمی بن سکتے تھے اور اپنے وطن کے لوگوں کی تالیف ِقلوب کر سکتے تھے۔تب اس عہدے کو کمانڈر ان چیف کہا جاتا تھا۔ مگر یہاں ایوب خان تریپن سے اٹھاون تک نہ صرف وزیر دفاع رہے وزارت داخلہ کا قلمدان بھی ان کے پاس رہا۔کمانڈر ان چیف تو ایوب خان لیاقت علی خان کے دور میں مقرر ہو گیا تھا۔یہ عہدہ اس کے پاس اکیاون سے اٹھاون تک رہا۔فائیوسٹار جنرل بھی رہا۔ اللہ میگھ دے نام کے دو ناول ہیں۔ ایک اللہ میگھ دے ۔رضیہ سجاد ظہیر کا ناول ۔پھر اسی نام کا ایک ناول آ گیا۔اس وقت واقعی اللہ نے میگھ عطا کی تھی۔دوسری بار جنرل اشفاق المجید کے وطن والوں نے بھی دعا کی تھی کہ اللہ میگھ دے۔تب مشرقی بھائیوں کی دعا قبول ہوئی۔صدیق سالک نے بھی آدھا سچ ہی بولا ہے اور باقی صدیقی کا شعر سنا کر اس کا اعتراف بھی کیا ہے ہر ایک بات زباں پر نہ آ سکی کہیں کہیں سے سنائے ہیں ہم نے افسانے اور کہا ہے کہ انہوں نے سیاسی اور فوجی پہلو کو نظر انداز کیا ہے۔جب ان دو پہلوؤں کو نظر انداز کریں گے جو براہ راست ہماری قومی تاریخی سے متعلق ہوں تو نہ لکھنا اس سے بہتر ہوتا ہے۔اے اہل اقتدار انصاف کی دہائی ہے!!!!