نچلی منزل ڈوبنے کا جب نظارہ دیکھنا اپنی منزل کے لیے پھر کبھی کنارا دیکھنا اب کے رونا بھی جو چاہیں رو نہیں سکتے ہم حال ہو گا اس سے آگے کیا ہمارا دیکھنا کیا کروں جو وقت کا نوحہ نہ کہوں ویسے بھی یہ سوختہ دل کی پکار ہے۔ ایک ہی مٹی کی خوشبو ایک ہی دھرتی کے رنگ۔ کس لیے پھر یہ نہیں ہم کو گوارا دیکھنا۔ ظلم کے سیلاب کو روکو‘ اگر یہ بڑھ گیا۔ اس میں کوئی مل نہ پائے کا سہارا دیکھنا۔ جو بھی ہے اب آخری صورت خدا کے پاس ہے۔ اب دعا میں ڈوب کر اپنا ستارہ دیکھنا اور آخری بات یہ کہ سعد کیسی شام غم ہے‘ کوئی روتا بھی نہیں۔ جان لیوا ہے خلا میں یہ تمہارا دیکھنا۔ میرا تو دل کٹ چکا ہے کہ ہم ڈھلوان سے لڑھکتے جا رہے ہیں۔ میں آئندہ کے خدشات بتا رہا ہوں وگرنہ اب کے تو وہ انقلابی ہیں جو سب کچھ چپ کر گئے۔ محلات کے وارث بن کر کیا ان کے لب پر یہ شعر جچتا ہے کہ دیپ جن کا محلات ہی میں جلے۔ اور پھر میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا۔ بابا کس کی نہیں مانتے۔ دوسری طرف بھی مکمل بادشاہی فرمان چلتا رہے اور سارے سنگت کرتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں۔ عجب وقت آیا ہے کہ سب کے سب ایکس پوز ہو گئے ہیں مگرسب بے نیاز ہو چکے ہیں کہ سوچیں۔ اب یہاں اس سوال کا جواب دینا پڑے گا کہ آخر سیاستدان کیوں اکٹھے نہیں بیٹھتے۔ ظاہر اس کا خواب چنداں مشکل نہیں کہ خان صاحب کسی بھی صورت میں ان کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتے۔ خان صاحب نے اسی ایجنڈا پر الیکشن لڑا کہ چوروں ڈاکوئوں سے مال واپس لیں گے مختصر یہ کہ سب کچھ کر کے دیکھ لیں۔ جیلوں میں ڈالا گیا مگر کچھ بھی نہ نکلا۔ خان صاحب مسلسل اس ایجنڈے کی تکمیل میں لگے رہے مگر نکام۔ پھر انہیں بیل آئوٹ کرنا پڑا۔ میں کوئی راز کی بات نہیں بتا رہا۔ پھر تو شیخ رشید بھی برملا کہہ چکے کہ وہ تو مسائل میں پھنسے ہوئے تھے کوئی راستہ نہیں تھا تو پی ڈی ایم ان کے لیے نجات دھندہ ثابت ہوئی۔ عدم اعتماد کر کے یہ پھنس گئے۔ گویا کہ عدم اعتماد نے پی ٹی آئی اور انہیں نئی زندگی دی۔ عمران ہیرو بن کر دوبارہ ابھرے اور چھا گئے۔ اب دونوں طرف سے کھل کر ایک دوسرے پر گولہ باری ہورہی ہے۔ سعد رفیق نے صاف الفاظ میں ہر بات اوپن کردی۔ عوام کے لیے اوپن سکرپٹ نہیں تھا کہ انہیں غلط بیانی کرکے پھنسایا گیا۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ آئی ایم ایف کے معاہدے پر دستخط کرنے ہیں۔ ملکی وقار اور عزت کا مسئلہ ہے وگرنہ ہم دیوالیہ ہو جائیں گے۔ سعد رفیق نے برملا کہا کہ ہمیں بتایا گیا کہ اگر آپ اس گیم میں آنے سے انکار کریں گے تو پھر الیکٹرک ووٹنگ مشین ہی فیصلہ کرے گی۔ خان صاحب دو تہائی اکثریت لے کر فوج میں بھی اپنی مرضی کی تعیناتیاں کریں گے اور پھر یہ صدارتی نظام لے آئیں گے۔ اگر جمہویرت بچانا چاہتے ہیں تو پھر یہ بھاری پتھر چوم لیں بلکہ اٹھا لیں۔ گویا کہ کسی وضعداری میں ملک کو دیوالیہ سے بچانے کے لیے انہوں نے اپنی سیاسی موت کے پروانے پ دستخط کردیئے۔ حیرت ہے کہ دوسری طرف بھی یہی شکوہ ہے کہ ہم سے عہد و پیماں تھے جو پورے نہ کئے جا سکے۔ میرا خیال ہے کہ جو کچھ بھی میں لکھ رہا ہوں یہ کوئی راز نہیں رہا۔ ہر چینل پر دہائی دی جا رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا ادارہ یعنی جہاں سے لوگوں کو انصاف ملتا ہے جہاں سے حکم صادر ہوتا ہے‘ وہ کہاں کھڑا ہے اس کے احکام کو تورتی برابر بھی اہمیت دی جاتی۔ اب کے تو ساری اتحادی پارٹیاں خم ٹھونک کرسامنے آن کھڑی ہوئی ہیں۔ پارلیمنٹ تو بے توقیر ہوئی تھی اب ہمارے معزز ادارے بھی سینگوں پر رکھ لیے گئے۔ یہ سب کے لیے ملحہ فکریہ ہے: اپنی اپنی انا کو بھلایا جا سکتا تھا شاید سارا شہر بچایا جا سکتا تھا عمران خان کو بھی سوچنا ہوگا کہ ان کے مخالفین جو کہ اچھی خاصی تعداد میں ہیں آپ انہیں ملک بدرنہیں کرسکتے۔ آپ ایک لمحے کے لیے ضرور سوچیں ۔ ستر ستر سالہ سیاستدان دھوکہ کھا گئے سب زیر دام آ گئے۔ چلیے ان سے غلطی ہو گئی سب کے تیور یکسر بدل چکے اور انہوں نے سارا لحاظ وحاظ طاق پر رکھ دیا ہے۔ انتہائی تشویشناک صورت حال ہے۔ مولانا فضل الرحمن تو یہاں تک کہہ گئے کہ عمران کو ٹھکانے لگانا ضروری ہے تب ہی ملک بچ سکے گا۔ ایک ادیب ہونے کے ناتے اس پر تو میرے خیال میں اقدام قتل کے قریب قریب مقدمہ ہو سکتا ہے۔ عدلیہ کو اتنا متنازعہ نہیں بننا چاہیے۔ ایسے ایسے سنگین الزام لگ رہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ کہنا تو نہیں چاہیے مگر ایسا ہے ضرور کہ پہلے ایک مسئلہ پیدا کیا جاتا ہے اور پھر اس کو حل کرنے کے لیے دو مسئلے اور پیدا کردیئے جاتے ہیں۔ ہزاروں بے چارے اپنے مقدمات کے لیے مہینوں نہیں برسوں سے انتظار میں ہیں جو بھی ہے اداروں کو اپنی ساکھ بحال کرنا ہوگی وگرنہ ساری انتظامی مشینری کو مفلوج ہو جائے گی۔ ساکھ تب ہی بحال ہوگی جب آئین کی پاسداری ہوگی۔ امتیازات خود بخود نظر آنے لگتے ہیں۔ اب آخری وقت پر ن لیگ کے وکیل نے بھی عدلیہ کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔اگرچہ فیصلے کا تذکرہ نہیں ہے۔ مگر پارلیمنٹری پارٹی نے ڈائریکشن دینی ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹری پارٹی ڈائریکشن نہ دے؟ پھر سوال آتا ہے کہ وہ کیوں فیصلے کے مطابق ڈائریکشن نہ دے؟ بہرحال ہم نے قارئین کی دلچسپی کے لیے کچھ تفصیل لکھ دی۔ ایک شعر: گونجتے رہتے ہیں الفاظ میرے کانوں میں تو تو آرام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ