وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کیلئے ڈیڑھ ارب روپے کے فنڈز کی منظوری دے دی ہے ۔ روزنامہ 92 نیوز کی خبر کے مطابق سیکرٹریٹ کا دائرہ اختیار 16 اضلاع تک محدود ہوگا ۔یہ 16اضلاع کونسے ہیں ، اس بارے کچھ نہیں بتایا گیا ۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق زاہد اختر زمان کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور انعام غنی کو ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب تعینات کر دیا گیا ۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب کا دفتر بہاولپور جبکہ ایڈیشنل آئی جی کا دفتر ملتان میں ہوگا۔ یہ بات بذات خود آدھا تیتر ، آدھا بٹیر کے مترادف ہے ۔ سیکرٹریٹ کیلیئے ڈیڑھ ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے ، ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ سیکرٹریٹ کی عمارتیں کہاں بنیں گی ۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ سیکرٹریٹ کے قیام کیلئے نہ تو اپوزیشن سے مشورہ کیا گیا اور نہ ہی وسیب کے حقوق اور صوبے کے قیام کیلئے پچاس سال سے جدوجہد کرنے والی سرائیکی جماعتوں کو اعتماد میں لیا گیا ۔ حقیقت یہ ہے کہسول سیکرٹریٹ سے مسئلے حل نہیں ہونگے ، وسیب کے مسائل کے حل کیلئے سیکرٹریٹ نہیں صوبے کی ضرورت ہے ۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار وسیب کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والی جماعتوں کی خدمات کی معترف رہے ہیں اور وہ محرومی کی بات بھی ببانگ دہل کرتے رہے ۔ صوبے کے مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے کہ جس طرح عام آدمی کی سہولت کیلئے نئے اضلاع اور نئے ڈویژن بنتے ہیں ، اس طرح صوبے بھی بنتے ہیں ، تقسیم کے وقت ہندوستان کے 9 صوبے تھے ، اب 36 ہو چکے ہیں ۔ مشرقی پنجاب پاکستانی پنجاب سے چھوٹا تھا ، اس کے تین صوبے ہریانہ ، ہماچل اور پنجاب بنا دیئے گئے اور دہلی کو بھی وفاقی اکائی کے طور پر صوبے کا درجہ حاصل ہے ۔ ہمارے ہاں یہ ہوا کہ ون یونٹ کے خاتمے پر بہاولپور ریاست کو بھی ضم کر لیا گیا ۔ موجودہ پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ 62 فیصد آبادی کا ایک صوبہ اور 38 فیصد آبادی کے تین صوبے۔ اس بناء پر وفاق کی گاڑی کس طرح چلے گی ؟ صوبے کی حمایت تمام جماعتیں کرتی ہیں ، جیسا کہ پیپلز پارٹی نے صوبہ کا وعدہ کیا اور یہ بھی کہا کہ ہم سرائیکی بینک بنائیں گے مگر وعدہ وفا نہ ہوا ، البتہ پیپلز پارٹی نے سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ سرائیکی صوبے کا بل پاس کرا دیا ۔ ن لیگ نے پنجاب اسمبلی سے دو صوبوںکی قرارداد پاس کرائی ، جس پر پارلیمانی کمیشن بنا مگر ن لیگ اپنی بات سے مُکر گئی اور صوبے کا معاملہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔یہ بھی دیکھئے کہ 2013ء میں ن لیگ نے دو صوبے بنانے کا وعدہ کیا اور اپنے منشور میں بھی لکھا کہ ہم دو صوبے بنائیں گے ، ن لیگ کو پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت حاصل ہوئی ، وہ صوبہ بنا سکتے تھے مگر وعدہ وفا نہ کیا ، جس کی بناء پر آئندہ الیکشن میں وسیب کے لوگوں نے ان کو ووٹ نہ دیئے۔ صوبہ بنانے کا وعدہ تحریک انصاف نے کیاہے ، اسے پورا کرنا چاہئے کہ الیکشن زیادہ دور نہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سرائیکی وسیب کے لوگ پر امن اور بقائے باہمی کے طور پر اپنا الگ صوبہ مانگ رہے ہیںاور نصف صدی سے زائد سرائیکی صوبے کی تحریک اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں آج تک ایک بھی دوکان کا شیشہ نہیں ٹوٹا۔ وسیب کے لوگ پنجاب کی تقسیم نہیں بلکہ اپنے کا مطالبہ کرتے ہیں جس پر رنجیت سنگھ نے قبضہ کیا ، انصاف اور اصول کا تقاضہ یہی ہے ، پنجاب ماضی کے صوبہ لاہور او ر اس کی ملحقہ ریاست قصور وغیرہ پر مشتمل ہو اور صوبہ ماضی کے صوبہ ملتان ، ماضی کی ملحقہ ریاستوں بہاولپور وغیرہ پر مشتمل ہونا چاہئے ، یہی ایک نسخہ ہے جو محرومیوں کو کم کر کے قوموں کو ایک دوسرے سے قریب کرسکتا ہے۔وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کو سیکرٹریٹ کی بجائے صوبہ دینا چاہئے اور وسیب کی تمدنی تہذیب، تاریخ اور جغرافیہ کا ہر صورت احترام کرنا چاہئے کہ پارلیمنٹ نے آئین میں ترمیم کر کے صوبہ سرحد کو شناخت دی ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک بار پھر شناخت کے مسئلے پر آئین میں ترمیم کرنا پڑے ۔ جس آئینی شناخت کے دوسرے صوبے اور خطے حقدار ہیں ، اسی شناخت کا حقدار وسیب بھی ہے ۔ سول سیکرٹریٹ صوبے کا متبادل نہیں ، حکومت کا یہ کہنا غلط ہے کہ ہم نے وعدہ پورا کر دیا ۔ سول سیکرٹریٹ کا نہیں صوبے کا وعدہ ہوا تھا ۔ تحریک انصاف کی طرف سے الیکشن کمپین سول سیکرٹریٹ نہیں بلکہ صوبے کے نام پر چلائی گئی اور صوبہ محاذ کا عمران خان سے تحریری معاہدہ صوبے کا تھا نہ کہ سول سیکرٹریٹ کا ۔ پچاس سال سے جدوجہد کرنے والی سرائیکی جماعتوں نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ وسیب کی مکمل حدود اور شناخت کے مطابق صوبہ بنایا جائے ۔ حکومت وسیب کے کروڑوں افراد سے مذاق نہ کرے ، ملتان بہاولپور کی تقسیم قبول نہیں ، ہم یکجہتی کی بات کرتے ہیں ۔ سرائیکستان صوبہ محاذ کے چیئرمین خواجہ غلام فرید کوریجہ نے ہنگامی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ وسیب کے لوگوں کو صوبہ اور شناخت چاہئے ، سی ایس ایس کا کوٹہ چاہئے ، صوبائی پبلک سروس کمیشن چاہئے ، ریونیو بورڈ چاہئے اور الگ ہائیکورٹ کے ساتھ ساتھ فوج میں وسیب رجمنٹ چاہئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وسیب کے لوگ الگ ملک نہیں صوبہ مانگ رہے ہیں ، اس سے وفاق پاکستان متوازن ، مضبوط اور مستحکم ہوگا۔ وسیب کے لوگ سمجھتے ہیں کہ بہاولپور کا ایشو سازش کے تحت شروع کرایا گیا ۔ جس کا مقصد میانوالی، سرگودھا ،جھنگ، بھکر ، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کو سرائیکی صوبے کے خلاف کرنا ہے ۔وسیب کے لوگ عرصہ 50 سال سے جدوجہد کرتے آ رہے ہیں ، اگر وسیب کے لوگوں کو پاکستانی سمجھا جاتا ہے تو وہ اپنے وسیب کی مکمل حدود اور اپنے وسیب کی شناخت کے مطابق صوبہ چاہتے ہیں، محسن انسانیت حضرت محمد صلے اللہ علیہ وسلم کے عالمی چارٹر ، اقوم متحدہ کے اصول اور آئین پاکستان کی رو سے کسی بھی انسان ، طبقے یاقومیت سے دوسرے درجے کا امتیازی سلوک جرم ہے۔ اگر سندھ ، پنجاب اور بلوچستان شناخت کے مطابق ہوسکتے ہیں اور صوبہ سرحد کو شناخت دینے کیلئے تمام سیاسی و مذہبی پارلیمانی جماعتیں آئین میں ترمیم کر سکتی ہیں تو سرائیکی وسیب سے امتیازی سلوک کیوں ؟