پاکستان کی سول سروس میں گذشتہ ساٹھ سال میں کی جانے والی تبدیلیوں پر نظر ڈالنے کی اس لیے بھی ضرورت نہیں ہے،کیونکہ عمران خان صاحب کی ''تبدیلی ٹیم'' نے جو تازہ ترین اصلاحات پیش کی ہیں۔ ان تمام گذشتہ ناکام اصلاحات کا بھونڈا چربہ ہیں انہی میں سے مواد حاصل کرکے ایک بارہ مصالحے کی چاٹ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان میں ہر وہ تبدیلی جسے ایک نئی کوشش اور تجویز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، وہ بار بار نافذ ہوئی، ناکام رہی اور پھرسابقہ حکومتوں نے انتہائی بے شرمی سے اسے واپس لے لیا۔مثلا، دوسرے صوبوں میں نوکری کرنے کی لازمی شرط، پہلے ضیاالحق نے لگائی، اس پر چند سال عملدرآمد کروایا، پھر اسے ختم کردیا،دوبارہ مشرف نے یہی پابندی لگائی،کچھ عرصہ عملدرآمد کروایا، پھر واپسی ہو گئی۔ اثاثوں کے گوشوارے گذشتہ پچاس سال سے داخل ہو رہے ہیں مگر یہ ایک بند کمرے میں ردّی کی صورت جمع ہیں جنہیں کوئی دیکھ نہیں سکتا۔ سلیکشن بورڈ کو پندرہ فیصد سے تیس فیصد نمبر پہلے بھی کئی بار دیے گئے اور اس کا انہوں نے جس طرح غلط اور ناجائز استعمال کیا، اس پر سپریم کورٹ کے لاتعداد فیصلے اتنے بڑے فورم کی بددیانتی پر مہر تصدیق ثبت کر چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ہر گریڈ میں سپیشلسٹ لینے کے لئے ''بعد میں داخلہ''(Lateral Entry) کے نام پرایک تجربہ کیا جو بری طرح ناکام ہوا۔ پاکستان کے ہر صوبے میں صحت اور تعلیم کے محکموں میں خصوصا اور دیگر محکموں میں عموما سپیشلسٹ افراد کو بیوروکریسی نے لاکر اعلیٰ عہدوں پر بٹھایا لیکن ناکامی میں وہ بھی کسی سی ایس ایس آفیسر سے کم نہ تھے، بلکہ زیادہ ہی تھے،یہاں تک کہ انکے اپنے ساتھیوں نے ہی ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور انہیں ہٹانا پڑا۔ کسی خاص شعبہ کو اپنے لیے مخصوص کرنے کا اور مہارت حاصل کرنے کا تصور نافذالعمل ہے۔ سب جانتے ہیں کہ سوائے فنانس اور پلاننگ کے شعبوں کے تمام شعبوں میں سیکرٹریٹ کی سطح پر کام ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے فنانس اور پلاننگ کے محکموں میں افسران گذشتہ ستر سال سے مخصوص مہارت والے ہی چلے آرہے ہیں اور کوئی انہیں کسی دوسرے محکمے میں پوسٹ کر کے کارکردگی تباہ نہیں کرنا چاہتا۔کیونکہ ایسا کرنے سے بجٹ کی تیاری تک رک جائے ۔یہ مذاق بھی عجیب ہوگا کہ ایک امراض قلب کا ماہر، ایک مکینیکل انجینئر، فزکس، کا پروفیسر یا کوئی ایسا ماہر اپنا اصل کام چھوڑ کر سیکرٹری لگے،عمارتوں کے ٹینڈر کھولے، چھٹیوں کی منظوری دے، پروموشن بورڈ بنائے اور دیگر انتظامی کام کرے،جس کا اس کی تعلیم اور تجربے سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔ ایسا بھی کئی بار کیا گیا اور یہ تجربہ بھی ناکام ہوا۔ صوبائی افسران اور مرکزی افسران میں کوٹے کی تقسیم صرف اور صرف پنجاب کا مسئلہ ہے۔ بلوچستان میں تو صوبائی افسران مرکز کے آفیسران سے زیادہ بہتر پوسٹوں پر تعینات ہوتے ہیں اور زیادہ تیزی سے پرموشن لیتے ہیں۔ اسے قومی مسئلہ بنا کر صرف رپورٹ خوبصورت کی گئی ہے۔ ایک اور دور کی کوڑی لائی گئی کہ ماتحتوں کے کام کی جائزہ رپورٹیں جنہیں ACRS کہا جاتا ہے ان میں سے صرف 20 فیصد ''سب سے اچھی''، 30 فیصد'' بہت اچھی''، 30 فیصد''اچھی''،10 فیصد ''درمیانہ'' اور دس فیصد'' درمیانے سے بھی کم'' لکھی جانی چاہییں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسوقت پاکستان کی پوری بیوروکریسی کی دراصل درمیانے (Mediocre) سطح کے لوگوں پر مشتمل ہو چکی ہے۔ گذشتہ پچاس سالوں سے ان میں سے اکثر کی ACRS ان کے آفیسران نے کثرت کے ساتھ ''سب سے اچھی'' لکھی ہیں۔ یہ جھوٹ اور مسلسل جھوٹ کیوں بولا گیا۔ اس کی لاتعداد وجوہات ہیں، جن میں اپنے گروپ کے افسران کے ساتھ تعصب، رشوت اور کمیشن کا بندوبست کرنے والے ماتحت کو نوازنا، ذاتی تعلق، سیاسی دباؤ، اگر کچھ اور نہ ہو تو اچھی ACRS لکھوانے کے لیے نقد رقم بطور رشوت بھی وصول کی جاتی رہی ہے۔ اس گروہ اور قبیل کے افسران پر جب صرف 20 فیصد ''سب سے اچھی''لکھنے کی پابندی لگائی جائے گی تو ایسا کرنے سے صرف اچھی ACR لکھنے کا ریٹ بڑھے گا ۔ پاکستان کی سول سروس جن اقدامات سے تبدیل ہو گی اسکی جانب عمران خان صاحب کو کوئی نہیں جانے دے گا۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے بیوروکریسی کا وہ تمام سٹیٹس کو (Status Quo) ٹوٹ جائے گا اور وہ ایک دیانتدار اور عوام دوست سول سروس بن کر برآمد ہو گی۔ ایسا کرنے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں، ورنہ یہ تبدیلی بھی ایسی ہے جیسے سات سو کی بجائے سات لاکھ ڈول پانی بھی نکالو، کنواں پاک نہیں ہوگا۔ oابھی تک سول سروس میں داخلے کی شرائط ایسی ہیں کہ اس میں ننانوے فیصد وہ لوگ امتحان پاس کرتے ہیں جن کے والدین انہیں اعلیٰ انگریزی میڈیم اداروں میں تعلیم حاصل کروا سکتے ہیں۔ یہ سب پہلے سے بااثر ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ سفارشوں کے پلے کارڈ بھی اٹھائے ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں، جرنیلوں، سرمایہ داروں کے بیٹے بھتیجے اور داماد۔ یہ صرف اس وجہ سے سول سروس میں اعلیٰ پوزیشن لیتے ہیں کیونکہ سول سروس کا امتحان انگریزی میں ہے۔ یہ ''انگریزی زدہ'' طبقہ جو اپنی آئندہ 35 سالہ نوکری میں کبھی انگریزی کا استعمال نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے عام آدمی پر حکمرانی کرنا ہوتی ہے۔ لیکن مقابلے کے امتحان میں انگریزی صرف اس لئے لازم کی گئی کہ سول سروس میں صرف اشرافیہ کے بچے داخل ہوسکیں اور عام آدمی کا بچہ محروم رہے۔ جب تک سول سروس کا امتحان اردو میں نہیں ہوتا، جس کے نتیجے میں ایک عوامی بیوروکریسی وجود میں نہیں آتی کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ oایک دیانتدار اہل اور صاحب کردار بیوروکریٹ کے لیے تحفظ بنیادی شرط ہے۔ اس لیے کہ اس کے اردگرد اور اس کے بالا آفیسر، اگر کرپٹ بددیانت اور نااہل ہوں اورواقعی ایسا ہی ہے،تویہ افسران اس کی ساری نوکری عذاب بنا سکتے ہیں ، بلکہ وہ نوکری سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔ ایسا بار بار ہوا ہے کہ جب سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے یا پھر اپنے مفاد کے تحفظ کے لئے بیوروکریٹ کسی ایماندار آفیسرکے خلاف متحد ہو گئے اور اس کو مسلسل کھڈے لائن لگایا، پرموشن سے محروم رکھا اور پھر بالآخراسے نوکری سے بھی نکال دیا۔ اسی لئے ایک ایماندار سول سروس کے لیے آئینی تحفظ انتہائی ضروری ہے جو ایماندار کو ناجائز احکامات ماننے سے انکار کرنے پر تحفظ دے۔ oسول سروس کی بہتری کے لیے یکساں مراعات کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ وہ سہولیات جو اسوقت صرف چند لوگوں اور چند پوسٹوں کو میسر ہیں۔ یہ مراعات ہی کرپشن اور ناجائز کاموں کی بنیاد بنتی ہے۔ ایک ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او اپنے کئی ایکڑ کے گھر گاڑیوں اور نوکروں کی فوج ظفر موج کو چھوڑ کر سکرٹریٹ میں نہیں آنا چاہتا، جہاں گھر میسر ہو اور نہ گاڑی۔ اسی طرح جن کو لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور یا اسلام آباد میں بڑے بڑے گھر میسر آجائیں، اور دیگر مراعات بھی مل رہی ہوں تو پھر آپ ان سے سہولیات چھن جانے کے خوف سے جو چاہیں کروا سکتے ہیں۔ oسول سروس کے افسران کے اثاثہ جات کے تعین کے لیے ایک بالکل علیحدہ ادارہ ہونا چاہئے جس کا بیوروکریسی سے کوئی تعلق نہ ہو۔ جہاں ایک آفیسر نوکری کے آغاز میں اپنے اثاثوں کی فہرست جمع کروائے اور ہر پرموشن سے پہلے اس کے اثاثوں کو عوامی جائزے کے لیے مشتہر بھی کیا جائے اور وہ آزاد ادارہ پروموشن سے پہلے اپنی رپورٹ بھی جمع کروائے۔ oاس وقت موجودہ سول سروس دو سیاسی پارٹیوں کے ونگ بن چکے ہیں۔ انکی گذشتہ نوکریوں میں بہترین تعیناتیوں کو دیکھ کر ان کی وفاداریوں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے اور اس کی بنیاد پر ایک وسیع تطہیر کی ضرورت ہے۔ یہ تمام لوگ اپنی سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے بہت کچھ کما چکے اور بہت زیادہ لطف اندوز ہوچکے۔ ان کا سایہ سول سروس کو صرف خراب کر سکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ایک بہت بڑا ایماندارانہ جائز لیا جائے اور سول سروس کو ازسر نو ترتیب دیا جائے۔ میں نے ایک طویل جائزہ تحریر کر دیا ہے آخر میں صرف ایک درخواست ہے کہ عمران خان صاحب، آپ اپنی پوری ٹیم جو اس تبدیلی کی سفارشی ہے، اسے پورے میڈیا کے سامنے عوام کے روبرو پیش کر دیں تاکہ وہ سوالات کا سامنا کریں۔میرا دعویٰ ہے ،دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔