پاکستان میں سیاسی سطح پر عمومی اتفاق پایا جاتا ہے کہ سول سروس میں اصلاحات اور بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے ۔ سیاست دان اور جنرل تھانے اور کچہری کا کلچر تبدیل کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود گزشتہ چالیس برسوں کے دوران کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس سلسلے میں کی گئی آخری کوشش کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہیںنکلا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت اصلاحات لانے کے لیے پرعزم ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین، جو مشرف دور میں ’’نیشنل کمیشن فار گورنمنٹ ریفارمز‘‘ کے سربراہ تھے، آج ایک مرتبہ پھر حکومت میں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب یقینا اس کام کے لیے درست انتخاب ہیں، لیکن اُنہیں، خاص طور پر صوبوں میں، سیاسی حمایت درکار ہوگی ۔ سول سروس میں آنے والی ہر تبدیلی صوبوں کو متاثر کرے گی۔ گزشتہ حکومت نے بھی تبدیلی کا عمل شروع کیا لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ جنرل مشرف کے دور میں یک طرفہ طور پر اصلاحات لانے کی کوشش کی گئی جب ایگزیکٹو مجسٹریسی کوختم کرکے ڈسٹر کٹ مینجمنٹ گروپ کے اختیارات محدود کرتے ہوئے اسے بعد میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس) کانام دے دیا گیا۔ مشرف نے مقامی حکومتوں اور پولیس کو بھی تبدیل کیا لیکن یہ اصلاحات دیر پا ثابت نہ ہوئیں۔ سیاسی طبقے سے تعلق رکھنے والے اُن کے ساتھیوں، جن میں سے کچھ موجودہ حکومت میں بھی شامل ہیں، نے اس بات کو یقینی بنایا کہ یا تو تبدیلیوں کو واپس موڑ دیا جائے ، یا انہیں اتنا غیر موثر کردیا جائے کہ وہ سٹیٹس کو کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہ بنیں۔ پولیس اور انتظامیہ کے سینئر افسران نے پوری کوشش کرکے ڈپٹی کمشنرز اور کمشنر ز کے عہدوں کو بحال اور پولیس کا احتساب کرنے کی کوشش کو دھول میں اُڑا دیا۔ وفاقی سول سروس میں کوئی بہتری نہ لائی جاسکی کیونکہ اس وقت تک پرویز مشرف کی ترجیح بھی تبدیلی لانے کی بجائے بچائو کی تدبیرکرنا تھی۔ تجاویز اور کمیشن رپورٹس کا کوئی فقدان نہیں۔ ’’نیشنل کمیشن فار گورنمنٹ ریفارمز‘‘ سے پہلے کم از کم نصف درجن تجاویز سامنے آئی تھیں کہ ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی سول سروس کا ڈھانچہ کس طرح ٹھیک کیا جانا چاہیے ۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سول سروس میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے تاکہ اس پر شہریوں کااعتماد بحال ہو ، سروسز کی موثر فراہمی ممکن ہو، معاشی پالیسی اور حکومت کا مالیاتی نظم درست ہو۔ لیکن ہم ان امور میں بہتری لانے کے لیے کئی عشروںسے جدوجہد کررہے ہیں۔ان ناکام کوششوں سے سیکھنے کے لیے بہت سا سبق ہے ۔ سول سروس میں اصلاحات کا لٹریچر کہتا ہے کہ سیاسی قیادت کے عزم اور منشا کے بغیر ایسا ممکن نہیں ۔ بھٹو کا کیس یہ بات واضح کرتا ہے ۔ جنرل مشروف اصلاحات لانے کا عزم تو رکھتے تھے لیکن اُن کے پاس سیاسی پشت پناہی موجود نہ تھی۔ چنانچہ اُن کی انتظامیہ کی لائی گئی تبدیلیاں ناکامی سے دوچار ہوتی گئیں۔ پاکستان کے کیس میں ، خاص طور پر اٹھارویں ترمیم کی منظور ی کے بعد سول سروس میں تبدیلیاں سیاسی قیادت کے بس میں نہیں رہیں۔ اس کے لیے وفاقی سطح پر وسیع تر اتفاق رائے اور پارلیمنٹ اور عدلیہ کی حمایت درکار ہے ۔ چنانچہ اتنا وسیع تر اتفاق ِرائے پیدا کرنا پی ٹی آئی حکومت کے لیے ایک کڑی آزمائش سے کم نہ ہوگا، خاص طور جب سیاسی فضا میں انتہائی تنائو موجود ہو۔ محققین کے مطابق اسٹیک ہولڈرز ، جو سیاست دان بھی ہوسکتے اور سرکاری افسران بھی، کو متاثر کرنے والے عوامل کی شناخت ضروری ہے ۔ اس سلسلے میں ٹیکنیکل کوشش، جیسا کہ نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کے ذریعے تبدیلی لانا، لازمی طور پر ناکامی سے دوچار ہوگا۔ یہ فرض کرنا کہ نئے روایتی قوانین افسران کا رویہ تبدیل کرنے میں معاون ثابت ہوں گے، خام خیالی ہے ۔ دنیا کے بہت سے حصوں میں ایسی کوششیں ناکام ثابت ہوچکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاحات لانے اور ان کے موثر نفاذکے لیے کشمکش کے تدارک، سیاسی کولیشن سازی اور قابل ِعمل مفاہمت کی ضرورت ہے ۔ حاصل ہونے والے دوسرے سبق کا تعلق وقت سے ہے ۔ نظا م ِحکومت میں بہتری لانے کے لیے وقت اور کوششوں کا تسلسل درکار ہوتا ہے ۔ پانچ سال کے اندر اصلاحات لانے کی سیاسی قیمت چکانی پڑسکتی ہے ۔ ان کا راستہ روکنے کے لیے مختلف دھڑوں کی طرف سے مزاحمت کی جائے گی ، چنانچہ وفاقی اور صوبائی سطح پر ہمہ گیر مفاہمت درکار ہے ۔شاید جس دوران نئی حکومت اہم تصورات پر غور کررہی ہے ، اسے چھوٹے اہداف سے تبدیلی کے عمل کا آغاز کرنا چاہیے۔ اگرچہ اس نے اپنی مہم کے دوران انقلابی تبدیلیوں کا وعدہ کیا تھا، لیکن زمینی حقائق کی طرف دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ سول سروس اصلاحات پر کیے گئے مطالعے ظاہر کرتے ہیں کہ بہتری لانے والی سب سے موثر چیز بھرتی کرتے وقت میرٹ کی پاسداری اور پرفارمنس کے مطابق تنخواہ دینے کی پالیسی ہے ۔ یہ پالیسی’’نیشنل کمیشن فار گورنمنٹ ریفارمز‘‘ کی تجاویز کا حصہ ہے۔ دستیاب گواہی سے پتہ چلتا ہے کہ بنیادی تنخواہ میں اضافہ کردینے سے سرکاری افسران کی کارکردگی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ پنجاب میںشہباز شریف دور (2008-2018ئ)میں پولیس اور ججوں کی تنخواہوں میں اضافے کی مثال لے لیں۔ تنخواہوں میں انتہائی اضافے(بعض صورتوں میں دوگنا اضافہ) کے باوجود عدلیہ کی کارکردگی میں کوئی بہتری نہ آئی، اور نہ ہی پولیس پر عوام کا اعتماد بحال ہوا۔ چنانچہ کارکردگی کے بغیر تنخواہوں میں اضافے سے گریز ضروری ہے ۔ تیسرا سبق یہ ہے کہ اصلاح کی کوئی کوشش بھی ’’سسٹم ‘‘ کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ پی اے ایس کی اشرافیہ کویقین ہے کہ ہر چیز کے متعلق سب سے بہتر علم اُن کے پاس ہے ۔ اعلیٰ افسران جانتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی حکومت کا آنا جانا لگا رہتا ہے ، چنانچہ وہ اصلاحات کا راستہ روکنا ضروری سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اصلاح کی کوشش میں ’’خسارے ‘‘ میں رہنے والوں کو ’’ریفنڈ ‘‘کیا جانا چاہیے ۔ اگر مراعات سے محروم ہونے والے افسران کی تلافی کردی جائے تو شاید وہ مزاحمت پر کمر بستہ نہ ہوں۔ اسی طرح اعلیٰ عہدوں پر ماہرین کی خدمات حاصل کرنے سے افسران کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔ چنانچہ تنظیمی ڈھانچے میں مداخلت کرنے کیے لیے ایک مر بوط پالیسی درکار ہے ۔ غیر مربوط تبدیلیاں آسانی سے ناکام بنائی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر سینئر سرکاری افسران کو ہاورڈ اور دیگر مقامات پر ٹریننگ دینے کے لیے ورلڈ بنک سے کئی ملین ڈالر ادھار لیے گئے لیکن اس کاوش کاکوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ کچھ دیگر ایشوز کو ملحوظ ِخاطر رکھنے کی بھی ضرورت ہے ۔ جب سروسز کی فراہمی کی بات ہو تو پی اے ایس لائن سروسز کو افرادی قوت فراہم نہیں کرتی۔ یہی حال صوبائی سطح پر سر وسز کی فراہمی کابھی ہے ۔ اساتذہ، ہیلتھ ورکرز اور دیگر اسٹاف اپنے محکمے کے بھرتی کے قواعد کے مطابق کام کرتا ہے ، اور ان پر سیاسی اثر بہت گہرا ہوتا ہے ۔ کئی کیسز میں اس کی ایک قیمت ہوتی ہے ۔ لوگ پیسے دے کر سرکاری ملازمت حاصل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے افسران کی تنخواہ بڑھانے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ جس ماتحت عملے کا عوام سے رابطہ ہوتا ہے ، وہ اپنی ڈگر پر رہتا ہے ۔ لیے گئے جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ اصلاحات کا نتیجہ منشا کے مطابق نہیں نکلتا۔ چنانچہ لچک دارطریقے سے اصلاحات کے عمل کو پیہم جاری رکھا جائے ۔ سول سروس میں اصلاحات لانے میں غیرملکی تجربہ بھی اتنا حوصلہ افزا نہیں ہے ۔ داخلی طو رپر متعارف کرائے گئے پروگرامز ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اصلاح کا تعلق مقامی سیاسی عمل سے ہوتا ہے ، چنانچہ عطیات فراہم کرنے والے عوامل اور ماہرین کی تجویز کردہ اصلاحات ناکام رہتی ہیں۔