پاکستان کی سول سروس ابھی تک انہی خطوط پر استوار ہے، جن پر اسے برطانوی سامراج نے اپنے اقتدار کی مضبوطی اور استحکام کے لیے قائم کیا تھا۔ برطانیہ نے بھی اپنا انتظامی ڈھانچہ ان بنیادوں پر استوار کیا تھا جوپہلے سے مغلیہ دور میں موجود تھیں۔ پورے ہندوستان کو ضلع، پرگنہ اور صوبہ وغیرہ کی تقسیم سے ایک انتظامی اختیاراتی درجہ بندی میں بانٹا گیا تھا۔ چانکیہ کی ارتھ شاستر، البیرونی کی تاریخِ ہند اور آئین اکبری سے لے کر ماثر عالمگیری تک ہر بڑی تاریخی کتاب میں برصغیر کے اس شاندار انتظامی ڈھانچے اور انتہائی کامیاب سول سروس کا پتہ ملتا ہے۔ اس سول سروس کو دو اہم ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں، (1) امن وامان کا قیام اور (2) انصاف کی فراہمی۔ اس کے علاوہ بھی اس انتظامی سربراہ اس وقت کے حکمران کے مزاج کے مطابق کچھ اضافی ذمہ داریاں ادا کرتے تھے ، مثلا اگر وہ علاقے فتح کرنا چاہتا ہے تو جنگ کیلئے افراد کی فراہمی یا پھراگر شیر شاہ سوری جیسا عوامی فلاح والے حکمران کیلئے کلکتہ سے پشاور تک ایک ایسی سڑک کی تعمیر، جو سایہ دار درختوں سے ڈھکی ہوئی تھی، ہر کوس پر ایک سرائے، کنواں اور خط و کتابت کی ترسیل کے لئے ایک ڈاک چوکی تک قائم کی گئی تھی۔ برصغیر کی اس قدیم سول بیوروکریسی کا کمال یہ تھا کہ انصاف کی فراہمی، مالیہ کی وصولی اور امن عامہ کے قیام کیلئے پورے ہندوستان میں یکساں قوانین نافذ تھے۔ شمس الدین شمس نے 1230ء میں پورے ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ کرتے ہوئے فقہ حنفیہ نافذ کر دی، جو پورے ہندوستان میں بحیثیت قانون اس وقت تک نافذ رہی جب تک انگریز نے 1860ء میں تعزیرات ہند کا قانون نافذ نہیں کر لیا۔ یہ چھ سو سالہ دور برصغیر پاک و ہند کا سب سے سنہرا دور ہے۔ اس دور میں پوری دنیا کی جی ڈی پی میں ہندوستان کا حصہ تیس فیصد تھا، ملک میں خواندگی کی شرح نوے فیصد سے زیادہ تھی اور امن و امان کا عالم یہ تھا کہ لارڈ میکالے 1835ء میں اپنے تحریر کردہ نوٹس میں لکھتا ہے کہ، اسے پورے ہندوستان میں کوئی چور اور فقیر نظر نہیں آیا۔ ایسے حالات میں بے روزگاری، ناداری اور مفلسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔آج ہندوستان کے ماتھے کا جھومر جو عالمی ورثہ ہے، خواہ وہ قطب مینار ہو یا تاج محل یا اسی قبیل کی ہزاروں خیرہ کن عمارات سب اسی دور کی یادگار ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب اس خطے میں امن اور خوشحالی تھی اور لوگوں کی تخلیقی صلاحیتیں اپنے عروج پر تھی۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے جو ٹوٹی پھوٹی سول سروس یہاں قائم کی اس کا بنیادی مقصدخالصتا کاروباری تھا۔ سراج الدولہ کو 1757ء میں شکست دینے کے بعداس سروس کے افراد کو بنگال میں انتظامی ذمہ داریاں بھی سونپ دی گئیں۔ اسکے بعد مدراس اور میسور میں بھی یہی لوگ زیرنگیں علاقوں کا انتظام لینے لگے۔ بادشاہ جیمز اول کی 1609ء میں قائم کردہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے جس قسم کی تجارتی سروس قائم کی گئی تھی، اس کے افراد کوئی انتظامی تربیت اور تجربہ نہیں رکھتے تھے بلکہ صرف دو کاموں کیلئے بھرتی کئے گئے تھے ‘مال کی تجارت اور جنگ۔ مگر جیسے ہی اس سروس کے افراد کو امن عامہ، انصاف اور ٹیکس وصولی جیسی اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں تو صرف دس سالوں کے اندر ان میں اتنی بددیانتی اور کرپشن پیدا ہو گئی کہ 1764ء میں برطانوی بادشاہ نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی توڑ دی جائے۔ چونکہ کمپنی مسلسل نقصان میں جا رہی تھی اس لئے ہندوستان میں مزید رہنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ لیکن 1765ء میں لارڈ کلائیو وائسرائے بن کر آیا اس کی درخوست پر اسے ایک موقع دیا گیا کہ وہ سول سروسز ریفارمز کرکے اسے بہتر بنائے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو منافع بخش بنائے۔ لارڈ کلائیو اس نتیجے پر پہنچا کہ کرپشن کی بنیادی وجہ ملازمین کی کم تنخواہیں ہیں، جو ان کی مناسب اور باعزت زندگی گزارنے کیلئے کافی نہیں ہیں۔ کمپنی کے ملازمین کو تجارت کرنے کی اجازت دی گئی تھی تاکہ وہ اپنے لئے بھی کچھ کماسکیں۔ وہ کمپنی کا مال بھی انگلینڈ لے جاتے اور ساتھ ساتھ اپنے لئے بھی یہاں سے مال لے جاکر انگلینڈ میں بیچتے۔ مفادات کے اسی ٹکراؤ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا بیڑہ غرق کردیااور انگریز یہاں سے بوریا بستر گول کرنے کا سوچنے لگا۔ لارڈ کلائیو نے تمام کاروبار کو صرف اور صرف کمپنی کے لیے مختص کر دیا۔ ملازمین کے کاروبار پر پابندی لگا دی ، لیکن تجارت سے ہونیوالے منافع میں سے 65 فیصد کمپنی کے ملازمین میں درجہ بدرجہ تقسیم کر دیا جاتا اور کمپنی صرف 35 فیصد منافع اپنے پاس رکھتی۔اس فیصلے نے اس سول سروس کی کایا ہی بدل دی۔ اس فیصلے کے بعد ملازمین کے لیے ایک ضابطہ اخلاق مرتب کیا گیا جسے عہد و پیمان کہا جاتا ہے۔ اس ضابطہ اخلاق کے تحت کسی بھی ہندوستانی شہری سے معمولی تحفہ بھی قبول کرنا جرم تھا جس کی سزا نوکری سے برطرفی تھی۔ اسی عہد وپیمان کی وجہ سے ہندوستان کی سول سروس کو Covenanted سول سروس کہا جاتا رہا۔ برصغیر میں سول سروس کی تطہیر اور ریفارمز کی یہ پہلی کامیاب کوشش تھی جس نے آنیوالے دنوں کیلئے ایک کلیہ چھوڑ دیا کہ جب تک آپ وسیع اختیارات رکھنے والے انتظامی عہدیداروں کو معاشی طور پر اس قدر بے فکر نہیں کر دیتے کہ وہ اپنی تنخواہ سے ایک بھرپور عزت دار زندگی گزار سکیں تو آپ انہیں اہل، کامیاب اور دیانتدار افسر نہیں بنا سکتے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ تھا کہ اگر آپ ملک میں ٹیکس یا آمدن بڑھانا چاہتے ہیں تو اسکے لئے سول سروس کے افراد کو بھی حصہ دار بناؤ۔ایسا کرنے سے وہ زیادہ ٹیکس وصول کرینگے اور حکومت کے محصولات میں اضافہ کریگا۔ان کامیاب ریفارمز کے بعد ایک سو سال تک برطانوی ہندوستان میں سول سروس کی کہانی ایک شاندار، کامیاب، ایماندار اور اہل سول سروس کی داستان ہے۔ وارن ہسیٹنگ نے 1773ء میں اس کے خدو خال واضح کیے اور اسے ایک مرکزی ڈھانچے میں مربوط کیا۔ اس کے بعد لارڈ کار نیویلس نے ان کی تعداد میں اضافہ کیا، انہیں مجسٹریٹ کے اختیارات دیئے اور اختیارات کے حساب سے انہیں اس قدر بااختیار کر دیا کہ ایک انتظامی سربراہ، ڈپٹی کلکٹر یا ڈپٹی کمشنر اپنے وجود میں ایک چھوٹا سا وائسرائے نظر آتا۔ ان اختیارات کے بعد بھی ایک دفعہ پھر کرپشن کی شکایات آنا شروع ہوئیں تو کارنیویلس نے ایک بار پھر ان کی تنخواہوں میں ان کے مرتبے اور اختیار کے حساب سے اضافہ کر دیا گیا۔اس نے سروس کے دو کیڈر بنادیئے۔ ایک کیڈر ان افسران کا تھا جسے عہد و پیمان (Covenant) سول سروس کہتے تھے۔یہ بہت کم تھے لیکن ان کے نیچے کام کرنے والوں کا ایک وسیع کیڈر بھی تخلیق کیا گیا۔با لائی کیڈر کے افراد کو اسقدر مضبوط ، معاشی طور پر مستحکم اور اختیارات کے حساب سے بالادست بنایا گیا کہ ان پر دباؤ ڈال کر غلط کام کرنے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تجربہ اس قدر کامیاب تھا کہ اس نے ایک غیر ملکی قوت برطانیہ کو یہاں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔اگر یہ سول سروس ناکام، نااہل، کرپٹ افراد پر مشتمل ہوتی تو عوامی غیض وغضب اس حد تک بپھر جاتا کہ وہ انگریز جن کی ہندوستان میں ایک وقت میں تعداد کبھی بھی تیس ہزار سے زیادہ نہیں تھی، بہت پہلے بوریا بستر لپیٹ کر ہندوستان سے رخصت ہو جاتے۔ 1773ء میں بننے والی اس سول سروس نے پورے ایک سو دس سال یعنی 1887ء تک اپنی اہلیت، قابلیت، دیانت داری اور انصاف سے تاج برطانیہ کو یہاں مضبوط کیا اور لوگوں کو انصاف ، امن و امان اور سروسز کی فراہمی کا ریکارڈ قائم کیا۔ یہی وہ دور ہے جب ہندوستان میں ریلوے، ڈاکخانہ، تعلیمی ادارے، نہری نظام، صحت عامہ، جانوروں کی صحت کے ہسپتال ، جنگلات، بلدیات، عدالتیں اور وہ تمام ادارے قائم ہوئے جن پر اس وقت پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، برما اور نیپال کے ممالک کی پوری انتظامی مشینری کی عمارت قائم ہے ۔(جاری ہے )