ایک بڑے شاپنگ مال میں بچوں کے لیے بھی کیھلنے کا بندوبست تھا۔ میرا یبٹا ایک کھیل کو دیکھ کر اس کی طرف لپکا‘ کھیل کو کنڈیکٹ کرنے والے نے بچے کی آنکھوں میں خول نما عینک چڑھائی جس میں شیشوں کی جگہ سکرین لگی ہوئی تھی۔ جوتے اتروا کر اسے اپنے خاص پھسلنے والے جوتے پہنا دیئے۔ ہاتھوں میں دو بندوق نما چیزیں دے کر ایک ماڈرن اکھاڑے میں اتار دیا۔ اب اگلے دس منٹ تک دانیال جو حرکتیں کرتا رہا وہ بہت مضحکہ خیز تھیں‘ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کسی خیالی دشمن سے لڑ رہا ہے۔ گیم کا وقت ختم ہوا تو شاپنگ مال کے ٹھنڈے ماحول میں بھی بچہ پسینوں پسینی ہورہا تھا۔ چہرہ خوشی اور جوش سے چمک رہا تھا۔ ماما میں نے سارے اینمی مار دیئے۔ آپ کو دیکھ کر ہمیں تو بہت ہنسی آ رہی تھی کہ یہ کیا ہو گیا ہے دانیال۔ بڑے بیوقوف سے لگ رہے تھے۔ ہوا میں ایکشن کرتے ہوئے، میں نے چھیڑا مگر مجھے تو بہت سارے ولن نظر آ رہے تھے جن سے میں نے لڑائی کی ہے۔ اس کھیل کا نام تھا VR یعنی Virual Reality۔ جو حقیقی زندگی میں تو موجود ہی نہیں تھی مگر ایسے کری ایٹ کی گئی تھی کہ بچہ اس کھیل میں جذباتی اور جسمانی توانائی لگاتا ہوا ہف گیا۔ کبھی کبھی مجھے سوشل میڈیا بھی ایک ایسی ہی ورچوئل رئیلٹی دکھائی دیتا ہے جہاں لوگ خود کو ذہنی‘ جسمانی اور جذباتی طور پر تھکا رہے ہیں اور اس کا حاصل معمول کچھ بھی نہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا شروع ہونا ماضی قریب کا قصہ ہے‘ اس ڈیجٹل انقلاب نے ہماری انفرادی زندگیوں سے لے کر اجتماعی زندگیوں کی ترتیب کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا کا آغاز ہوا تو یہی سمجھا گیا۔ اس سے دور دراز کے لوگوں کے آپس میں سماجی رابطے بڑھیں گے۔ لوگ جب دوست بنائیں گے تو دوستی اور برداشت کے جذبات پروان چڑھیں گے اس طرح اس متنوع دنیا میں اختلاف برداشت کرنے والا گلوبل سماج پروان چڑھے گا۔ جو کچھ ہوا وہ اس کے برعکس تھا‘ ان کم و بیش دو دہائیوں میں انٹرنیٹ پر موجود سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم سے جتنی نفرت‘ بدتہذیبی‘ بدتمیزی اور زہریلی سوچیں پھیلائی گئی ہیں اس نے معاشرے کے تانے بانے کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ لوگ سکرین پر بیٹھ کر جب اپنی انگلیوں کی پوروں سے بات چیت کرتے ہیں تو وہ اختلاف سامنے آنے پر زیادہ منہ پھٹ‘ بدتہذیب اور دوسرے کے جذبات کو مجروح کرنے والے بن جاتے ہیں۔ مغربی دنیا میں یہ باقاعدہ ریسرچ کا موضوع ہے۔ دنیا بھرکے نفسیات دان انسانی مزاج کے اس پہلو اور سوشل میڈیا کے حقیقی زندگی پر اثرات کے حوالے سے ریسرچ میں مصروف ہیں۔ یقین نہ آئے تو صرف گوگل پر یہ ٹائپ کر کے دیکھ لیں کہ Why people become so mean on social media. ان گنت مضامین آپ کے سامنے آ جائیں گے۔ میں نے اس موضوع پر کافی کچھ پڑھا‘ حیرت انگیز طور پر جو میرا اپنا مشاہدہ ہے وہ بھی کم و بیش ایسی ریسرچ تھیوریز کے نتائج سے ملتا جلتا تھا۔ سوشل میڈیا کی نفسیات یا Psychology of social media پر بھی بہت کام ہوا ہے اور بڑے دلچسپ مضامین پڑھنے کو موجود ہیں۔ اس آئینے میں ہم سب اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً ریسرچ بتاتی ہے کہ جو لوگ ہر روز سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹیں لگاتے ہیں وہ اپنے اندر عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں اور اپنے ہونے کی سند سوشل میڈیا کی دنیا سے لائکس اور کمنٹس کی صورت میں چاہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت صرف کرنے والے اپنی زندگی میں تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔ حقیقی زندگی میں ان کے دوست کم ہوتے ہیں اور وہ اس ورچوئل رئیلٹی میں خود کو خوش رکھتے ہیں کہ ہمارے ہزاروں دوست ہیں۔ نوجوان نسل بھی اپنے وقت کو پڑھائی اور مثبت سرگرمیوں میں گزارنے کے بجائے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پرضائع کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اپنی پوسٹوں اور شیئرنگ پر آنے والے لائکس اور کمنٹس سے وہ اس خوش فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ وہ بہت کچھ حاصل کر رہے ہیں کیونکہ یہ ورچوئل ورلڈ اپنے صارف کو شناخت کا جھوٹا احساس دیتی ہے۔ سماج مذہبی‘ مسلکی اور سیاسی طور پر ہمیشہ سے تقسیم رہا ہے مگر مختلف نظریات رکھنے والے طبقات کے درمیان جس قدر تقسیم اس وقت موجود ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ یہ سب بھی ان سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بوئی ہوئی نفرت کی فصل ہے۔ نظریات میں اختلاف پہلے بھی ہوتے تھے مگر زبانیں اتنا زہر کبھی نہیں اگلتی تھیں۔ روزانہ ایسی نفرت بھری پوسٹیں اور زہر سے بھرے ہوئے کمنٹس آپ کی نظروں سے گزرتے ہوں گے۔ کوئی انٹرویو کوئی عام سی ویڈیو کچھ بھی اٹھا کر دیکھ لیں اس کے نیچے عام پبلک کے کمنٹس پڑھیں تو سوچ کی پستی اور زبان کے لچر پن پر کانوں کو ہاتھ لگائیں گے۔ چونکہ سوشل میڈیا ویب سائٹس پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہر شخص کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ فیک آئی ڈیز سے دوسروں پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے بلکہ اب تو لوگ اپنی اصل آئی ڈیز کے ساتھ بھی اپنے مزاج کی پستی کا مظاہرہ کرنے میں نہیں جھجھکتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہی سوشل میڈیا کا کلچر ہے کہ اختلاف برداشت نہ کرو اور اپنے کہے کو حرف آخر سمجھو۔ سیاسی‘ مسلکی اور نظریاتی اختلاف دوستیاں اور رشتے اور تعلق کھانے لگے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر دوست بنانے آسان ہیں تو ذرا سے اختلاف پر دشمن بنا کر ان کی گرد اڑانا اور بھی سہل ہے۔ یہ سب ڈرامہ ورچوئل میں ہورہا ہے مگر حقیقی زندگی کے تانے بانے کو متاثر کرتا ہے۔ ذہنی صحت دائو پر لگی ہے۔ ٹرولنگ،Cyber bullying اورVirtual stone throwers کی نئی اصطلاحات ہیں جو وجود میں آ چکی ہیں۔ (جاری)