پاکستان کی سیاسی تاریخ عسکری اور سول قیادت کے درمیاں کشمکش کی داستان ہے۔ جس وقت فوج اقتدار میں ہوتی ہے اس وقت بھی یہ کشمکش جاری رہتی ہے جس وقت فوج اقتدار میں نہیں ہوتی تب بھی اس تنائو کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ اکثر حکمرانوں کی طرح ایوب خان کی ابتدا اچھی اور انتہابری تھی۔ مگر جب تک پاکستان کی سڑکوں پر ایوب خان کے خلاف نعرے بلند نہیں ہوئے تب تک انہوں نے ڈٹ کر حکومت کی۔ سابق صدر ایوب خان ایک بااعتماد انسان تھے۔ وہ بیرونی طاقتوں کے رعب میں آنے والے نہیں تھے۔ انہوں نے امریکہ سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ یہ سچ ہے کہ اس وقت کے عالمی حالات مختلف تھے مگر ایک حکمران کی شخصیت کے اثر سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ صدر ایوب کے دور میں سیاسی سرگرمیاں موجود تھیں مگر وہ فیلڈ مارشل کی بھاری بھرکم شخصیت کے تلے تب تک دبی رہیں جب تک ذوالفقار علی بھٹو کی صورت میں صدر ایوب کے خلاف ایک مقبول بغاوت نہ پھیلی۔ صدر ایوب کو ذات کی انا اور عزت نفس نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ ہر صورت اقتدار سے چمٹے رہیں۔ صدر ایوب کے بعد یہ ملک بہت بڑی آزمائش سے گزرا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ،بھارت میں پاکستان کے جنگی قیدی اور عالمی برادری میں پاکستان کے قومی وقار کی بحالی ایسے بہت بڑے مسائل تھے۔ ان حالات میں ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخی کردار ادا کیا اور پاکستان خدا کی مہربانی سے ایک معجزے کی طرح دنیا کے نقشے پر جگمگانے لگا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پرکشش شخصیت سے کوئی سیاسی کافر ہی انکار کرسکتا ہے۔ ان کے دور میں پاکستان کے اندر سیاسی تحرک تیز ہوا مگر اس کے ساتھ ساتھ طاقتور ہوتی ہوئی سیاسی حکومت سے فوج کے اختلافات پس پردہ شروع ہوچکے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے ساتھ فوج کو کمزور کرنے کی کوشش بھی کی۔ ذوالفقار علی بھٹونے ان کی بات نہ ماننے والے فوجی جرنیلوں سے جبراً استعفے لیے۔ معاملہ وقتی طور پر تو دب گیا مگر فوج ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہوگئی اور پھر وہی ہوا جس کا ذوالفقار علی بھٹو کو ڈر تھا۔ پاکستان میں فوج کی طرف سے بھٹو حکومت کو ہٹا کر اقتدار کی باگ اپنے ہاتھ میں لینے سے ملکی سیاست پر جو منفی اثرات مرتب ہوئے ہم ابھی تک ان کا نقصان برداشت کر رہے ہیں۔ جنرل ضیاء کا دور عالمی سطح پر پاکستان کے لیے اہمیت کا حامل ہوتے ہوئے بھی داخلی طور پر شدید ترین کھینچاتانی کا دور تھا۔ پاکستان میں تحریک برائے بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کی جدوجہد کی ایک تاریخ ہے مگر اس تاریخی دور میں بھارت دوسری بار کھل کر پاکستان کے خلاف سازشی کھیل کھیلنے میں مصروف ہو گیا۔ بھارت کو اگر پاکستان میں جمہوریت کی بحالی سے دلچسپی ہوتی تو پرویز مشرف کو وی آئی پی پروٹوکول نہ ملتا۔ بھارت نے کبھی بھی پاکستان میں جمہوریت کی بحالی میں دلچسپی نہیں لی۔ بھارت کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔ بھارت کا سب سے بڑا مفاد یہ ہے کہ وہ پاکستان کو بحرانوں میں دیکھنا چاہتا ہے۔ جنرل ضیاء کے دور میں بھارت نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے سرگرم سیاسی کارکنوں کو اپنے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح فوج اور سویلین قیادت کے درمیاں فاصلہ مزید بڑھ گیا۔ جنرل ضیاء کے دور میں افغانستان میں روسی فوج کا داخل ہونا پاکستان میں فوج کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ اس دور میں فوج کو دونوں سرحدوں پر نظر رکھنا پڑی۔ ایک طرف بھارت جمہوریت کے نام پر پاکستان کے جذباتی کارکنوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کررہا تھا اور دوسری طرف افغانستان سے انقلاب درآمد کرنے کی طفلانہ کوششیں فوج کے لیے قومی سالمیت کے مسائل پیدا کر رہی تھیں۔اگر اس دور میں ہم قومی طور پر سیاسی بالغ ہوتے تو عسکری اور سیاسی قوتوں کے درمیاں قومی مفادات پر ہم آہنگی سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا تھا۔ یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی سوبلین قیادت نے ایم آر ڈی سے لیکر میموگیٹ تک ہمیشہ امریکہ سے مدد مانگنے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست اور سہرا پاکستان کے سر ہے مگر سوویت یونین کے کمزور ہوتے ہی امریکہ نے پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بننے شروع کیے۔ آموں کی پیٹوں میں بم کس نے رکھے؟ اس سوال کا جواب تو محمد حنیف کے ناول A Case of Exploding Mangoes میں بھی نہیں ہے مگر جنرل ضیاء کے بعد جمہوریت کی بحالی سے ایک طرف سرکاری کرپشن کا راستہ کھلا اور دوسری طرف فوج اور منتخب حکومت کے درمیان بھرپور کشمکش کا آغاز ہوگیا۔ حالانکہ بینظیر بھٹو نے مرزا اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت سے نوازا مگر بات صرف اس وقت کے آرمی چیف کی نہیں تھی۔ یہ ایک ادارے کا معاملہ تھا۔ وہ ادارہ جس کا وجود ملکی وجود سے مشروط ہے۔ دنیا میں سرد جنگ کا خاتمہ تو ہوگیا مگر پاکستان کے اقتدار میں فوج اور سویلین قیادت کے درمیان سرد جنگ کبھی ختم نہیں ہوئی۔ فوج کے ساتھ وہ سیاستدان بھی الجھتے نظر آئے جن کی پرورش فوج نے کی تھی۔ اس تلخ سچائی کی سب سے بڑی مثال میاں نواز شریف ہیں۔ میاں نواز شریف نے اقتدار میں آتے اور مضبوط ہوتے ہی بھارت کے ساتھ جس طرح قربت پیدا کرنے کی کوشش کی اس عمل سے فوج میں خطرے کی گھنٹی بجنا ایک فطری بات ہے۔ میاںنواز شریف کو ان کے ساتھیوں نے بہت سمجھایا جو فوج کی نفسیات سے واقف تھے مگر میاں نواز شریف نے ان کی بات سنی ان سنی کردی تھی۔ جس کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا۔ یہ افسوس اور حیرت کی بات ہے میاں نواز شریف کو تین مرتبہ اقتدار ملا مگر وہ ایک بار بھی فوج اور اپنی حکومت کے درمیان وہ توازن پیدا نہ کرسکے جس کی پاکستان کے مخصوص حالات میں ضرورت ہے۔ فوج نے میاں نواز شریف کو صرف سیاست کا راستہ ہی نہیں دکھایا بلکہ اس کی ہر بار بھرپور مدد بھی کی مگر جواب میں میاں نواز شریف نے فوج کو کمزور کرنے میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔ کیا اس بات کا نقصان صرف نواز شریف کو ہوا؟ اس بات کا سب سے زیادہ نقصان اس ملک نے برداشت کیا ہے۔ اگر بینظیر بھٹو سے لیکر میاں نواز شریف تک ہماری سیاسی قیادت اور فوج کے درمیان طاقت کے سلسلے میں توازن پیدا ہوجاتا تو پاکستان سے امریکہ دھمکی آمیز لہجے میں بات نہ کرتا۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ فوج کو کمزور کرنے کے لیے پاکستان کے سیاستدانوں نے امریکہ کی طرف نہ صرف دیکھا بلکہ مدد کے لیے ہاتھ بھی بڑھایا ہے۔ اس وقت پاکستان اپنی سیاسی تاریخ میں پہلی بار فوج اور سول حکومت کے درمیان ایک آئیڈل توازن نظر آ رہا ہے۔ پاکستان میں جب بھی آرمی چیف اور منتخب وزیر اعظم کے درمیان ملاقات ہوتی ہے تب سیاسی مبصروں کی نظریں سیاسی اور عسکری قیادت کی باڈی لینگویج کا جائزہ لینا شروع کردیتی تھیں۔ پاکستان میں آرمی چیف اور وزیر اعظم کی ملاقات ہمیشہ تناؤ کی کیفیت میں ہوئی۔ مگر عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد وزیر اعظم اور آرمی چیف کی جتنی بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں ان ملاقاتوں کے دوران دونوں کے چہروں پر ایک سکون اور اطمینان نظر آیا ہے۔ ایسے سکون اور اطمینان کی جھلک پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی بھی نہیں دیکھی گئی۔ یہ کیفیت تب پیدا ہوتی ہے جب فریقین کے درمیان نہ صرف گہری انڈر سٹینڈنگ ہو بلکہ ایک مضبوط اعتماد بھی ہو۔پاکستان میں فوج کا وجود ایک حقیقت ہے۔ اس حقیقت سے انکار کرکے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں اگر سول اور عسکری قوتوں کے درمیان کشمکش رہے گی تو اس اس کا نقصان ملک کو ہوگا۔ پاکستان کا قومی اور ریاستی مفاد اس میں ہے کہ دونوں قوتیں ایک ایسے توازن کو برقرار رکھیں جس توازن میں نہ کوئی قوت عزت کا سوال اٹھائے اور نہ کوئی عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہوجائے۔ تاریخ نے عمران خان کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالی ہے۔ یہ ذمہ داری فوج اور حکومت کے درمیان پر اعتماد اور متوازن تعلقات کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس وقت امریکہ پاکستان پر اقتصادی اور سیاسی دبائو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے اور بھارت کی موجودہ خاموشی میں گہری ناخوشی نظر آ رہی ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان میں سیاسی اور عسکری قوتوں کے درمیان ہم آہنگی اور اعتماد کے توازن سے پیدا ہونے والی پریشانی ہے۔ عمران خان کی سب سے بڑی کامیابی عسکری اور سیاسی قوتوں کے درمیان اس دوری کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے جس دوری کی کوکھ سے پاکستان کے لیے سیاسی ؛ سماجی اور اقتصادی بحران جنم لیتے رہے ہیں۔