پاکستان کے صحت افزا‘تفریحی مقامات اور تاریخی ثقافتی ورثے سے دنیا کو روشناس کرانے کی حکومتی کاوش پر کون کافر ناک بھوں چڑھا سکتا ہے۔ پچاس ممالک کے شہریوں کو آن ارائیول ویزا دینے کی حکومتی پالیسی مرحبا! نیپال‘ بھوٹان‘ تھائی لینڈ اورسوئٹزر لینڈ کی معیشت کا زیادہ تر دارو مدار سیاحت پر ہے جبکہ پاکستان ان ممالک سے زیادہ پرکشش‘ سرسبز اور دلآویز ہے مگر قیام پاکستان سے اب تک ہم نے ترقی و خوشحالی کے لئے چند گھسے پٹے فارمولے آزمائے اور ناکام رہے۔ ستر فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے‘ ذریعہ روزگار زراعت ہے مگر ہم نے خوش دلی اور دلجمعی سے کبھی زراعت پر توجہ دی نہ دیہی علاقوں اور یہاں بسنے والے محروم و مظلوم عوام کے بنیادی انسانی حقوق پر‘مرکز اورصوبوں میں زراعت کے محکمے ہیں ‘اربوں کا بجٹ اور مہارت کے بلند بانگ دعوے مگر کاشتکاروں کو یہ تک نہ بتا سکے کہ گندم‘ چاول‘ گنے اور کپاس کے علاوہ بھی کئی فصلیں نقد آور اور مفید ہیں‘ لائیو سٹاک کا شعبہ مکمل نظراندازاور پھل‘ پھول ترجیحات میں نچلی سطح پر۔ شمالی علاقہ جات کے پھل خوشبو اور ذائقے میں دنیا کے بہترین پھل ہیں مگر انفراسٹرکچر موجود نہ کاشت‘ برداشت‘ پیکنگ اور برآمدات کی مناسب سہولتیں دستیاب۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کی صورت میں بہترین مارکیٹ ان پھلوں اور جوسِز ‘ مربہ جات کی طلب گار مگر ہم بے بہرہ و بے خبر۔ منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے کہ ایک سال ٹماٹر‘ آلو اور پیاز کی پیداوار اتنا زیادہ کہ کسان اپنی پیداوار احتجاجاً سڑکوں پر پھینکنے پر مجبور کہ پیداواری لاگت پوری کرنا مشکل ہے اور دوسرے سال قلت کا یہ عالم کہ درآمد کے لئے بھاری زرمبادلہ درکار‘ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘ کپاس کی کاشت کے لئے موزوں علاقوں میں ہم شوگر ملیں لگاتے اور بڑے شہروں کے اردگرد زرعی رقبے پر رہائشی کالونیاں اگاتے ہیں۔ بے ترتیب و بے ہنگم۔ یہی حال سیاحتی مقامات کا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل جن چند سیاحتی مقامات پر آمدورفت شروع ہوئی ‘انہی تک لوگوں کی رسائی ہے۔ مری‘ نتھیا گلی‘ راولاکوٹ‘ زیارت‘ بھوربن‘ فورٹ منرو ‘ سوات‘ کاغان‘ کالام اور چند دیگر۔ یہاں بھی کبھی پانی مسئلہ بن جاتا ہے اور کبھی رہائش و خوراک کی ناکافی سہولتیں۔ سب سے زیادہ مسئلہ امن و امان کا ہے کہ سفر محفوظ نہیں اور سیاحوں کے لئے حفاظتی بندوبست ؟۔ ع ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان ‘ خیبر پختونخواہ ‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے بعض علاقے سوئٹزر لینڈ‘ ناروے‘ آئر لینڈ‘ کروشیا‘ ایری زونا‘ پرتگال اور کینیڈا کے حسین مقامات سے زیادہ خوبصورت اور دلفریب ہیں۔ جہاں تک رسائی آسان کر دی جائے‘ رہائش و خوراک کی سہولتیں دستیاب ہوں اور سیاحوں کی مناسب رہنمائی کے لئے مہذب ‘ تعلیم یافتہ اور ایماندار گائیڈز کی موجودگی کو یقینی بنا دیا جائے تو سیاحتی سرگرمیوں میں اضافہ ناگزیر۔ بلوچستان اور سندھ کی ساحلی پٹی کا مقابلہ بلا شبہ امریکہ اور یورپ کے ان ساحلوں سے کیا جا سکتا ہے جہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی مگر جس ملک کی انتظامیہ اور معاشی ماہرین کی ٹیم اس ساحلی پٹی کو ملائشیا اور انڈونیشیا کی طرح پام کی کاشت کے لئے استعمال میں نہیں لا سکی ‘وہ اسے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بنانے کی اہل کہاں؟ اہم ترین مسئلہ ترجیحات کے تعین کا ہے‘ عمران خان خود ان سیاحتی مقامات کے دلدادہ ہیں اور پوری دنیا گھومنے کے بعد ان مقامات کی اہمیت و افادیت سے آگاہ۔ وہ اگر چاہیں تو تعلیم ‘ صحت اور سیاحت کے لئے زیادہ سے زیادہ وسائل مختص کر کے ان فراموش کردہ شعبوں سے روزگار کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں ۔ چین‘ امریکہ اور ناروے میں ہم نے تعلیمی اداروں کے طلبہ کو گائیڈ کے طور پر خدمات انجام دیتے دیکھا اور کئی پاکستانی طلبہ بھی بیرون ملک اپنے تعلیمی اخراجات اس طرح پورے کرتے ہیں۔ صنعتی شعبہ تو آہستہ آہستہ تجارت میں مگن ہے۔ ہمارے صنعتی ادارے الاماشاء اللہ پیکجنگ اور اسمبلنگ کے ادارے بن گئے ہیں۔ کوریا‘ جاپان اور چین سے پرزے منگوائے‘ جوڑے اور میڈ ان پاکستان کا لیبل لگا کر فروخت کر دیئے۔ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ برآمد کنندگان چاول‘ دھاگہ اور دیگر سازو سامان بیرون ملک بھیجتے ہوئے طے شدہ بین الاقوامی اصولوں اور معیار کو ملحوظ رکھتے نہ ملاوٹ سے گریز کرتے ہیں۔ برآمدات میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ زرعی مصنوعات محدود ہیں بین الاقوامی منڈی میں مقابلہ نہ کرسکنے کی وجہ بجلی اور گیس کے ناروا نرخ نہیں‘زیادہ تر کیسوں میں معیار اور اعتبار کا بحران ہے‘ جسے بہتر بنانے کی طرف کبھی توجہ دی ہی نہیں گئی۔ کارحکمرانی دو نمبری اور فریب کاری کا مرہون منت ہوتو کاروبار میں معیار اور اعتبار کا اہتمام کون اور کیوں کرے۔ سیاحت کے وفاقی اور صوبائی محکمے ازکار رفتہ ہیں اور عہد حاضر کے تقاضوں سے قطعی نابلد۔ سیاحت کی بات ہو تو ایک ہی رونا روئیں گے کہ جب تک ملک میں شراب و شباب سے مستفید ہونے کی کھلی چھٹی نہ ہو کوئی غیر ملکی سیاح پاکستان کا رخ کیوں کرے؟ ان کے خیال میں قدرتی مناظر سے محظوظ ہونے کے شوقین سیاح صرف شوق شراب اور ذوق شباب کی تسکین کے لئے کسی ملک اور علاقے کا رخ کرتے ہیں لیکن اس سوال کا جواب ان نابغوں کے پاس بھی نہیں کہ قیام پاکستان کے پہلے تیس سال تک جب شراب پر پابندی تھی نہ حدود آرڈیننس کا نفاذ ہوا تھا آپ نے سیاحت کو ترقی کیوں نہ دی اور شراب و شباب کے رسیا جنرل یحییٰ خان و جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس شعبے نے کتنا زرمبادلہ کما لیا؟۔ خوئے بد‘ بہانہ بسیار۔ غیر ملکی سیاحوں اور غیر مسلموں کے لئے ویسے بھی دُخت از پر کوئی پابندی نہیں اور ہمارے باذوق مسلمان مسیحی بھائیوں کے کوٹے سے اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔ عمران خان اگر موجودہ بیورو کریسی اور پولیس کی موجودگی میں سیاحت کا فروغ چاہتے ہیں تو ایں خیال است و محال است و جنوں‘ کرپشن اور لوٹ مار کا ایک نیا راستہ ضرور کھلے گا۔ حکومت سے سیاحت کے نام پر بعض ایسے اقدامات بھی شائد کرا لیے جائیں جو سیاسی مشکلات میں اضافہ کریں اور اپوزیشن کو تنقید کا موقع ملے۔ پنجاب پولیس کی اصلاح کے لئے وہ پرعزم ہیں‘ سیاحت کے لئے نئے مقامات دریافت‘ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور سہولتوں کی فراہمی کے علاوہ حفاظتی بندوبست کے لئے نئے ادارے وجود میں لائیں‘ عہد حاضر کی ضرورتوں سے واقف اور قومی خدمت کے جذبے سے سرشار افراد پر مشتمل یہ ادارے ایئر پورٹ سے سیاحتی مقامات تک غیر ملک۔۱۸ اور ملکی باشندوں کی خدمت پر مامور ہوں اور انتظامات کے ذمہ دار‘ تبھی یہ بیل منڈھے چڑھ سکتی ہے۔ ساہیوال سانحہ کی ذمہ دار پولیس‘ مری میں سیاحوں کی لوٹ مار میں ملوث مافیا کی معاون مددگار‘ انتظامیہ اور مختلف سیاحتی مقامات پر تعمیر شدہ گیسٹ ہائوسز اور ریزارٹس کی تباہی کا ذمہ دار محکمہ سیاحت ویزا آن آرائیول کی سہولت دینے کے بعد بھی سیاحت کو معیشت کی بنیاد بنانے میں کارآمد نہیں۔ ہر گزنہیں۔ آزمائش شرط ہے۔