ہر بحران ہر سانحہ ہمیں جنجھوڑ کر یاد دلاتا ہے کہ بس بہت ہو گئی ہمیں سنبھل جانا چاہیے۔ہم یہ سبق پڑھنا شروع کر دیتے ہیں کہ ریاست کے مفادات کو ذاتی مفاد اور جذبات کا غلام نہیں بنانا چاہیے اپنی بات پر اڑے رہنے اور اپنی بات کو حقیقت پسندانہ اور سچ ثابت کرنے کے لئے خواہ مخواہ اٹکے رہنے سے ہم اپنے بنیادی مقاصد سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست میں تو شاید یہ اصول درست ہو۔ کہ کوئی ملک کسی کا یار نہیں ہوتا یہ مفادات ہوتے ہیں ہم ہمیشہ اس غلط فہمی میں مارے گئے کہ امریکہ ہمارا یار ہے وہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کو جس نے ہمیشہ اسے فاصلے پر رکھا منہ نہیں لگائے گا لیکن دیکھ لیں 1965ء کی جنگ میں وہ غیر جانبدار ہو گیا اور تاشقند میں روس کی معاونت سے صلح کا معاہدہ ہوا۔1971ء میں روس نے کھل کر بھارت کا ساتھ دیا اور ہم امریکی بیڑے کا انتظار کرتے رہے ۔آپ وقت کا جبر دیکھیں مقبوضہ کشمیر کو براہ راست دلی سے چلایا جا رہا ہے وادی کشمیر میں محصور ڈیڑھ کروڑ انسان اس عمل کے سبب ایک وسیع جیل کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔دنیا میں نئے بلاک بن رہے ہیں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ڈالر سے چھٹکارے کے لئے نئے راستے تلاش کئے جا رہے ہیں۔ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے قریب آنے کے لئے خیر سگالی کا مظاہرہ کر رہے ہیں دنیا بدل رہی ہے اور ہم ہیں کہ ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں خود کو تقسیم کر رہے ہیں۔اپنے مسیحائوں کے مفادات کی خاطر اپنے ہی گھر کو آگ لگا رہے ہیں محبت اخوت رواداری اور یکجہتی کے بجائے ایک دوسرے کا گریبان پکڑ رہے ہیں لیڈر ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی طرف ہاتھ بڑھا کر مسائل کو حل کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی تذلیل کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر اپنی اپنی خواہشات بیان کرنے کا طوفان اور ریلا امڈ آیا ہے جس نے پوری قوم خصوصاً نوجوانوں کو ڈیپریشن میں مبتلا کر دیا ہے۔اس وقت بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان سیاسی اور معاشی بحران کے حوالے سے شہہ سرخیوں میں نمایاں ہے۔ایک ایسا ملک جس کا پہلا اور بنیادی مسئلہ بھوک افلاس اور ننگ ہے۔جس کے انتظامی ڈھانچے کی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں،جس کے قانون اور انصاف کے نظام پر تنقید کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔ مجھے آج پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس جناب سعید الزماں صدیقی کی یہ بات یاد آ رہی ہے ڈیفنس کراچی میں واقع اپنے گھر کے بالائی منزل پر قانون اور انصاف کے متعلق الماریوں میں قرینے سے سجی کتابوں کے درمیان آرام دہ ریوالونگ چیئر پر بیٹھ کر انہوں نے کہا تھا کہ جس ملک کا سیاستدان بدعنوان اور بددیانت ہو۔ جس ملک کا حکمران لالچی ہو، دانشور چور ہو بیورو کریسی رشوت اکٹھی کرنے کی مشینیں ہوں، اس ملک کے قائم رہنے کا جواز اللہ کے کرم کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔انہوں نے ہی کہا تھا۔تاریخ میں حکمران وہی زندہ رہتا ہے جو مظلوموں کے آنسو پونچھے،جو معاشرے سے عدم مساوات کھرچ دے، بے روزگاری اور بیماری کے خلاف جہاد کرے، جو پرچون فروش سے صنعت کار تک سب کے مسائل سمجھتا ہو۔جب میں پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالتا ہوں تو شہید ملت خان لیاقت علی خان کی وفات کے بعد۔ ایوب خان کے سبز انقلاب سے حکمرانی کی توسیع کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کی کوشش تک‘ یحییٰ خاں کی حماقتوں کے سبب سقوط ڈھاکہ تک ،بھٹو کے روٹی کپڑا مکان کے نعرہ تک ضیاء الحق کے اسلام کی زبانی تشریح سے سائیکل چلانے کے مظاہرے تک ،بے نظیر کے غریب کا مقدر بدلنے کے عزم تک‘ نواز شریف کا ترقی کے نئے سفر کے وعدوں تک مشرف کا نت نئے تجربات سے ججوں کو مقید کرنے کے حیران کن اقدامات تک، آصف علی زرداری کا جیل سے ایوان اقتدار تک عمران خان کا ایک کروڑ نوکریوں اور 50لاکھ گھروں کی تعمیر تک اور شہباز شریف کا سہانے خواب کی تکمیل سے عوام کو تباہ کن مہنگائی کا تحفہ دینے تک ہمارا سفر ایک ڈولتی ہوئی نائو کی طرح ہے۔ نئے جذبوں سے سرشار قوم آج اتنی چڑ چڑی بیزار‘ مردہ دل مستقبل سے مایوس اور غیر یقینی کا شکار کیسے ہو گئی۔آپ کو جواب مل جائے گا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ بہت کچھ جو کیا جا سکتا تھا اور کیا جانا چاہیے تھا وہ نہیں کیا گیا۔ یہ تو مانیں کہ ہم سے پے درپے غلطیاںہوئی ہیں۔ ہمارا صنعتی ڈھانچہ زمین بوس،خزانہ خالی ہو رہا ہے ملک کے 90فیصد ترقیاتی کام بند ہو چکے ہیں، روپیہ آخری سانس لے رہا ہے، ڈالر 300کی حد تک عبور کرتا دکھائی دے رہا ہے، اسٹاک ایکسچینج روز مرہ کی بنیاد پر کریشن کر رہا ہے۔عام آدمی کے لئے دو وقت روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں جس طرح کوئی گاڑی پٹرول کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی اسی طرح حکمرانوں اور با اختیار لوگوں کی ایمانداری ،فرض شناسی اور ملک سے محبت قوموں کی ترقی کے لئے پٹرول کا درجہ رکھتی ہے ۔ہمارے کردار میں ہماری ناکامیوں کی چڑیں پیوست ہیں۔گزشتہ دنوں ایک سیمینار میں غیر ملک سے آئے ہوئے ایک پاکستانی دانشور کو ہماری کم مائیگی‘ پسماندگی، جہالت ، کرپشن اور غیر جمہوری روایات پر احساس دلاتے دیکھا ۔وہ کہہ رہے تھے انسان بن جائو ورنہ برباد ہو جائو گے اور پھر دلچسپ اور تکلیف دہ بات یہ تھی کہ ہال میں ہم سب سر جھکائے ان کے طعنے سن رہے تھے لیکن کوئی انہیں یہ نہیں بتا رہا تھا کہ جس ملک کے ایک لاکھ سے زیادہ ڈاکٹر ملک سے باہر ہوں وہاں بیماری نہیں ہو گی تو کیا ہو گا جس ملک کے 30ہزار سے انجینئرز کوالالمپور سے لاس اینجلس تک غیروں کی بھٹیاں جھونک رہے ہوں اس ملک کے 36ہزار صنعتی یونٹس بند نہیں ہو ںگے تو کیا ہو گا ۔جس ملک کے 10ہزار سے زیادہ زرعی ماہرین کینیڈا آسٹریلیا کی بنجر زمینوں پر رزق بو رہے ہوں اس ملک کی لاکھوں ایکڑ زمینوں پر قحط کاشت نہیں ہو گی تو کیا ہو گا۔ زندگی کا کون سا شعبہ ہے جس میں ہماری مالیاتی اور اقتصادی ماہر ہزاروں کی تعداد میں غیر ممالک میں خدمات انجام نہ دے رہے ہوں ۔عقل سوال کرتی ہے کہ ایک ڈاکٹر عبدالقدیر جب 21ویں صدی کے دروازے پر کھڑے ہو کر پاکستان کو دنیا کی ساتویں نیو کلیر طاقت بنا سکتا ہے تو ملک سے باہر بیٹھ کر اس کی بربادی کا تماشا دیکھنے 3لاکھ ڈاکٹر عبدالقدیر اور 85لاکھ کام کرنے والے ہاتھ اور اتنے ہی سوچنے والے دماغ آ کر اسے جاپان سنگا پور اور کوریا کیوں نہیں بنا سکتے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر آج میں یہ سوال ان دانشوروں کے سامنے رکھوں جو ہمیں طعنے دیتے نہیں تھکتے تو وہ جھٹ کہیں گے کہ آج کے حالات میں گزشتہ 5سال میں 10لاکھ سے زیادہ افراد مایوسی کے عالم میں ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔ اب وہاں سے واپس کون آئے گا۔پاکستان میں 9مئی کو جو کچھ ہوا اس نے مایوس دلوں اور زیادہ شکستہ کر دیا یہ سب مفادات کے کھیل ہیں ایسا لگتاہے کہ محتاط انداز میں تیار کردہ منصوبے کو عملی جامہ پہنایا ۔عمران کے پاس یہ راستہ ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے صلح صفائی کا راستہ اختیار کریں، اپنے حمایتیوں کو سمجھائیں کہ وہ اب سنبھل جائیں۔حکومت اور فوج کو بھی صورت حال کا ازسر نو جائزہ لے کر معافی گفت و شنید اور محبت کے مرہم سے گھائو جیسے زخم مندمل کرنے چاہئیں۔