یہ خبر تو قارئین کی نظر سے گزری ہی ہوگی کہ ایک خاتون نے جناح ہسپتال کے واش روم میں بچّے کو جنم دیا ۔ اِس خبر پر خاتون کئی ایک مبارک بادوں کی مستحق ہوگئی ہے۔ اے خوش نصیب خاتون تجھے مبارک ہو کہ تجھے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیٹے جیسی نعمت سے نوازا ۔ جناح ہسپتال سے زچہ وبچہ کا بخیریت اور زندہ نکل آنے پر بھی مبارک باد۔ ایک مبارک باد واش رُوم کے بر وقت میسّر ہو جانے پر۔ یہ مبارک باد میں اِس لئے دے رہا ہوں کہ تقریباً ہر سرکاری ہسپتال کے واش رُوم پہلے سے RESERVED ہوتے ہیں البتہ اُن پر یہ لفظ نہیں لکھا ہوتا۔ ایک مبارک باد یہ بھی بنتی ہے کہ متعلقہ خاتون نرسوں اور ڈاکٹروں کی دخل اندازی سے بچ گئی۔ یہ لوگ تو بعض اوقات لیبر روم میں لیبر سے بچنے کے لئے سیزیرین آپریشن کر ڈالتے ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں یہ خطرہ زیادہ ہے کیونکہ اس آپریشن کی فیس لاکھوں میں ہوتی ہے۔ دوسری بات جو اکثر میرے مشاہدے میں آئی وہ یہ ہے کہ ہر واش رُوم کے باہر لوگ یُوں کھڑے ہوتے ہیں جیسے بنک میں بِل جمع کروانے آئے ہیں۔ میری تجویز یہ ہے کہ ہر واش رُوم کے باہر لکھا ہونا چاہیے " قطار بنائیے" ۔ واش رُومز کے باہر رش کم کرنے کے لئے ٹکٹ بھی لگائی جا سکتی ہے یا ہر واش رُوم کے باہر ایک مشین رکھ دیں جو سٹیٹ بنک کا نیا دس روپے کا سکّہ ڈالنے پر واش روم کا دروازہ کھول دے اور اِس مشین اور واش رُوم کے دروازے میں ایک برقی رابطہ ہونا چاہئے۔ اگلی تجویز یہ ہے کہ ہسپتال کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وُہ واش رومز کی صفائی کا خاص خیال رکھے تاکہ جو نئی رُوح اِس دُنیا میں آئے ، یہ نہ سمجھے کہ یہ دُنیا نہایت بد بُودار ہے۔ اگر واش رُوم میں ایک سٹریچر بھی رکھ دیا جائے تو زچہ و بچہ ، دونوں کی منزل بہت ہی آسان ہو جائے گی۔ ایک اخبار میں اُس خاتون کے خاوند کا انٹرویو چھپا ہے جس نے اور باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا ہے کہ یہ ہسپتال جیل اور بوچڑ خانے سے بھی بُرا ہے۔ میرے خیال میں اِس مردِ شریف نے جیل اور بوچڑ خانے کا ماحول اور کارکردگی نہیں دیکھی ورنہ وُہ کبھی یہ بات نہ کرتا ۔ لگتا ہے کہ نہ تو اُسے کسی اخلاقی یا غیر اخلاقی جرم پر جیل جانے کا اتفاق ہوا تھا اور نہ ہی اُس نے کسی بوچڑ خانے کا اندرونی ماحول دیکھا تھا ورنہ وہ کبھی جناح ہسپتال کو جیل یا بوچڑ خانے سے تشبیہ دے کر توہین ہسپتال کا مرتکب نہ ہوتا۔ اس ہسپتال کو جیل یا بوچڑ خانہ کہنا اس عظیم ادارے کو UNDERRATE کرنے والی بات ہے۔ یہ بات صرف اسی ہسپتال پر صادق نہیں آتی۔ صوبے کے تقریباً تمام سرکاری ہسپتالوں کے نظام میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔ بہرحال ہم یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ سرکاری ہسپتالوں کو جیل یا بوچڑ خانہ کہنا نہ صرف ان ہسپتالوں کے ساتھ بلکہ جیلوں اور بوچڑ خانوں کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔ ہمیں بدقسمتی سے جیل جانے کا ذاتی تجربہ تو کبھی نہیں ہوا لیکن ہمارے دوستوں اور ملنے والوں میں کئی ایسے حضرات ہیں جو تبدیلی آب و ہوا کے لئے اکثر جیل جاتے رہے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو پورے سیزن کے لئے جیل کو بک کروالیتے ہیں۔ ہمارے مرحوم دوست حبیب جالب کا تو یہ حال تھا کہ انہیں ڈیڑھ دو ماہ تک جیل جانے کا موقع نہ ملتا تو ان کے جسم میں شوگر کی مقدار بڑھ جایا کرتی تھی۔ ایسی صورت میں ان کا ڈاکٹر نسخے میں دوائوں کے علاوہ کیمپ جیل بھی لکھ دیتا تھا۔ وہ سنت نگر میں ہمارے ہمسائے تھے۔ ایک بار ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے۔ " یار ! میں اپنے علاقے کے تھانیدار سے سخت تنگ ہوں۔ ہو سکے تو اس کا تبادلہ کروائو" " گرفتار کرنا چاہتا ہے؟" ہم نے پوچھا۔ " نہیں یار" وہ بولے " گرفتار ہی تو نہیں کرنا چاہتا۔ اسی لئے تو کہا ہے اس کا تبادلہ کروائو" مرحوم ہمیں جیل کے اندر کے حالات مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔ جالب مرحوم کے علاوہ جناب شورش کاشمیری بھی جیل کی نہایت دلکش تصویر کھینچا کرتے تھے۔ غالباً 1966 ء کا ذکر ہے۔ شورش مرحوم میوہسپتال کی سائوتھ میڈیکل وارڈ میں داخل تھے۔ ہم ان کی عیادت کو گئے تو وارڈ کے سائیڈ روم کے باہر ڈیوٹی پر متعین دو پولیس اہلکاروں نے ہمیں اندر جانے کی اجازت نہ دی ۔ ہم نے غصے میں کہا " یہ ہسپتال ہے یا جیل؟" اس سے پہلے کہ پولیس والے کچھ کہتے ، اندر سے شورش صاحب کی گرجدار آواز سنائی دی۔ " بخاری میاں ! اندر آجائو اور ہسپتال کو جیل کہہ کر جیل کی توہین نہ کروـ" میں اندر گیا تو فرمایا ، " ہماری حکومتیں بے حد بے وقوف ہیں۔ ہمیں سزا دینے کے لئے جیل بھیج دیتی ہیں ۔ اگر ان کی کھوپڑی میں ذرہ برابر بھی عقل ہو تو ہم جیسے عادی مجرموں کو کسی سرکاری ہسپتال میں بھیجیں" بڑے لوگ تو خیر بڑے ہوتے ہیں، جیل کے اندر تو چھوٹے لوگوں کو بھی اتنی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں کہ گھر میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ رہے بوچڑ خانے تو وہاں صرف عمر رسیدہ اور زندگی سے تنگ آئے ہوئے جانوروں کو قید حیات سے آزاد کر کے اُن پر احسان کیا جاتا ہے۔ نہ ان کے عزیزوں کو پریشان کیا جاتا ہے، نہ ہزاروں کے بل دے کر گھر والوںکو کنگال اور مقروض کیا جاتا ہے۔ کیا اب بھی کوئی شخص سرکاری ہسپتالوں کو جیل یا بوچڑ خانے سے تشبیہہ دے گا؟ جیل یاترا کرنے والے اکثر ادیبوں ، شاعروں اور سیاستدانوں نے جیل کے اندر کے حالات یوں بیان کیے ہیں کہ انہیں پڑھ کر قاری کا جی چاہتا ہے کہ خُدا اُسے بھی کچھ عرصے کے لئے جیل میں زندگی بسر کرنے کا موقع عطا کرے ۔ اِن حضرات کی لسٹ بہت لمبی ہے ۔ کالم میں اتنی جگہ نہیں ہوتی ورنہ اگر میں اُن کے حوالے سے جیل کے اندر کا ماحول بیان کروں تو یقیناً آپ کا جی چاہے گا کہ اللہ آپ کو بھی جیل جانے کی سعادت نصیب کرے۔ انشا ء اللہ کسی اور کالم میں ان معزز قیدیوں کی جیل کے اندر کی زندگی قدرِ تفصیل سے بیان کروں گا۔