3مارچ کو سینیٹ الیکشن میں حکومتی امیدوارحفیظ شیخ کی شکست اور اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضاگیلانی کے فتح نے اقتدارکے ایوانوں میں بھونچال برپاکررکھا ہے۔وزیراعظم نے ’ڈواورڈائی‘کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ کابینہ ارکان ہوں یا افسر شاہی سبھی کو قبلہ درست کرنے کیلئے آخری وارننگ دی جاچکی۔ اب ٹال مٹو ل اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کاحربہ کارگر نہیں ہوگا ۔ وزیراعظم کو ادراک ہوچکا وقت کم اور مقابلہ انتہائی سخت ہے۔وزیراعظم نے قوم کیساتھ کئے وعدوں کی پاسداری کیلئے فائنل راؤنڈ کاآغازکر دیاہے‘کرکٹ کی اصطلاح میں اسے سپر اوور بھی کہہ سکتے ہیں تاہم کامیابی کا واحد حل یہی ہے کہ کپتان یہ اوور خود کروائیں۔ وفاقی حکومت کے ماتحت سرکاری کمپنیوں اور کارپوریشنز میں بیڈ گورننس‘اقرباپروری اور بدعنوانی کے باعث سالانہ 500ارب روپے کانقصان ہورہا ہے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت اور عوام گزشتہ 10برس کے دوران ان کمپنیوں میں 5ہزار ارب روپے جھونک چکے ۔ افسر شاہی کی جانب سے فرانزک آڈٹ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ۔ تاہم اب پہلے مرحلے میں پاکستان ریلوے‘پی آئی اے‘سوئی سدرن‘ پشاور الیکٹر ک سپلائی کمپنی اور ناردرن پاور جنریشن کمپنی کا فرانزک آڈٹ کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان کمپنیوں کا فرانزک آڈٹ 30جون تک مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن مقرر کردی گئی ہے۔ دوسرے مرحلے میں پاکستان پوسٹ آفس‘ کوئٹہ‘ حیدرآباد‘ لاہور اور سکھر الیکٹرک پاور کمپنی کا فرانزک آڈٹ کیا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان گڈ گورننس کے فروغ اور اقربا پروری کے خاتمے کیلئے تمام ممکنہ اقدامات کرنے پر مائل ہیں مگر کچھ رنگ بازافسران‘ وزیراعظم کی کوششوں کو ناکام بنانے کے درپے ہیں جس کی بڑی مثا ل کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہے۔ وزیراعظم نے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد سی ڈی اے کی تنظیم نو کا اعلان کیا تھا۔ تقاضا تو یہ تھا کہ اچھی شہرت کے حامل باصلاحیت اور ہاؤ سنگ سیکٹر کا تجربہ رکھنے والے لوگ سی ڈی اے بورڈ کے ممبران لگتے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ کچھ بااثر وزراء نے اپنے منظورنظر افسران کو ریلوے سے سی ڈی اے میں قوائد ضوابط میں نرمی اور وفاقی کابینہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کربورڈ ممبران تعینات کروانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔یہ سب کچھ اخبار میں تشہیر کے بغیر اور وفاقی کابینہ میں بحث کے بغیر بذریعہ سمری سرکولیشن ہورہاہے۔سید منور شاہ پاکستان ریلوے میں بطور ڈی ایس خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ منور شاہ نے ڈی ایس ریلوے کے ساتھ ساتھ ڈی جی ریل کا اضافی چارج بھی حاصل کیا ہوا تھا۔منور شاہ نے فلپائن سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی۔سید منور شاہ کو ڈی ایس ریلوے راولپنڈی سے سی ڈی اے میں ممبر انجینئرنگ تعینات کروایا گیا ہے۔منور شاہ پرایک وفاقی وزیرکی خصوصی شفقت ہے۔آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس گروپ کے رانا شکیل پاکستان ریلوے میں تعینات تھے۔ بااثر افراد کی آشیر باد سے راناشکیل کو پہلے سی ڈی اے میں ڈی جی فنانس کے عہدے پر تعینات کروایا گیا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد رانا شکیل کو سی ڈی اے میں ممبر فنانس کے عہدے پر فائز کردیا گیا ہے۔تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ رانا شکیل نے ممبر فنانس کا عہدہ حاصل کرنے کے بعد اپنی نظریں چیئرمین سی ڈی اے کے عہدے پر مرکوز کردی ہیں۔ مطلوبہ مقاصد کے حصول کیلئے سی ڈی اے میں منظم منصوبے کے تحت ٹیم کی تشکیل ضروری تھی لہٰذا پاکستان ریلوے کے افسران عامر عباس خان کو ممبر ایڈمن اور سید علی رضوان کو ڈی جی ایچ آر کے عہدے پر تعینات کرواکر سی ڈی اے کو پاکستان ریلوے کے ذیلی ادارہ کی شکل دیدی گئی ہے۔پاکستان ریلوے کے سگنلز اوپر نیچے کرنے والے افسران کو کیامعلوم کہ سی ڈی اے کے ممبر انجینئرنگ یا بورڈ کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔اصولی طور پر بورڈ ممبران کاتعلق نیسپاک‘ ایف ڈبلیو او یا کسی معرف تعمیری شعبہ سے ہونا ضروری ہے۔ وفاقی دارالحکومت گزشتہ 4برس کے دوران ترقیاتی کاموں میںتاخیر کے باعث بُری طر ح متاثر ہوا۔چیئرمین سی ڈی اے عامر علی احمد نے تمام تررکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود ہمت نہ ہاری۔ عامر علی احمد نے انتھک کوششوں سے اسلام آباد کے حسن کی بحالی کی جانب گامزن جبکہ ٹریفک اورپانی سمیت درپیش دیگر بنیادی مسائل کے حل کیلئے شبانہ روز سرگرم عمل ہیں۔ سوال یہ ہے پاکستان ریلوے اربوں روپے سالانہ خسارے اور تباہی سے دوچار ہے۔ سی ڈی اے پر قابض ہونیوالے پاکستان ریلوے کے افسران کی باصلاحیت ٹیم سے انکا اپنا ادارہ پہلے ٹھیک کیوں نہیں کروایا گیا۔کیا اس اقدام کو وزیراعظم عمران خان اور چیئرمین سی ڈی اے عامر علی احمد کو ناکام بنانے کی مذموم سازش سمجھا جائے؟ آخر سی ڈی اے میں کیا کشش ہے کہ پاکستان ریلوے کے افسران کو دھڑا دھڑ سی ڈی اے میں تعینات کیا جارہا ہے ۔ اگر وفاقی حکومت سی ڈی اے میں اقربا پروروی کی بنیاد پر تعیناتیاں کرے گی تو کیا اس اقدام سے وزیراعظم کا نام روشن ہوگا؟تاہم یہ ضرور ہے کہ اقربا پروری کی بنیاد پر سی ڈی اے میں تعینات افسران اسلام آباد کی تباہی کا باعث ضرور بنیں گے کیونکہ بورڈ ممبران کے پاس متعلقہ عہدوں کے مطابق اہلیت نہیں ہے۔ وزیراعظم کو ’فائنل راؤنڈ‘ میں’رنز روکنے کے لیے فیلڈنگ بھی خود سیٹ کرنا ہوگی‘ یعنی ان تعیناتیوں کا نوٹس لینا ہوگا؟ ’گڈ‘گورننس کی ایک اور مثال بھی دیکھئے ۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقی اسد عمر نے 26مارچ کو وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ پٹرول بحران پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں وفاقی سیکرٹری پیٹرولیم اسد احیاء الدین کو ہٹا دیا گیاہے جبکہ پیٹرولیم ڈویژن کو دیگر ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی ہدایت بھی جاری کردی گئی ہے۔ 6روز گزرنے کے باوجودکارروائی تو درکنار سیکرٹری پیٹرولیم اسد احیاء الدین اور دیگر ذمہ داران اپنے عہدوں پر پوری تندہی اور لگن سے ’سرکاری‘ امورکی انجام دہی میں مصروف جبکہ اسد عمر کلینڈر پر نگاہیں جمائے بیٹھے ہیں۔قابل اجمیری کیا خوب کہہ گئے: راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا