اسلام آباد(خبر نگار،مانیٹرنگ ڈیسک،صباح نیوز) عدالت عظمٰی نے 68دہشتگردوں کو بری کرنے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا ۔جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے دہشتگردوں کی بریت کے فیصلے کے خلاف وزارت دفاع کی اپیل باقاعدہ سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے قانونی معاونت طلب کرلی اور ملزمان کی رہائی کے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کر کے جیل سپرنٹنڈنٹ کو ملزمان کی رہائی سے روک دیا۔ عدالت نے کیس کی ابتدائی سماعت کی تو حکومتی وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ پشاور ہائیکورٹ نے حقائق کا درست طور پر جائزہ نہیں لیااوردہشتگردی جیسے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو شک کا فائدہ دیا حالانکہ حقائق سے ملزمان کے جرائم ثابت ہوتے ہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ملزمان کی سزائیں بحال کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا جیل حکام کو ملزمان کی رہائی سے روکا جائے ۔عدالت نے ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرکے تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کردی ۔ادھرسپریم کورٹ نے این آر او سے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کے لئے دائر درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فریقین سے تحریری دلائل طلب کرلئے جبکہ دوسابق صدور پرویز مشرف اور آصف علی زرداری اور سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے اثاثوں کی تفصیلات خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔جسٹس اعجا زالاحسن کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے قرار دیا کہ اٹارنی جنرل اور نیب سوئس مقدمات اور این آر او کا جائزہ لے کر جواب داخل کرائیں،جواب اور دستاویزات آنے کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کریں گے ۔عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ ہونے تک پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور ملک قیوم کے اثاثوں کی تمام تفصیلات سر بمہر رکھنے کی ہدایت کی اور ابزرویشن دی کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی، فیصلہ آئین وقانون کے مطابق کیا جائے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا سوئس بنکوں میں پڑا پیسہ پاکستان کا ہے اس کے کیا شواہد ہیں؟، اکاؤنٹس کی شناخت کیا ہے ،آصف زرداری کے وکیل کہتے ہیں کہ وہ تمام کیسز سے بری ہوچکے ، یہ تو واضح ہے کہ سوئس اکاؤنٹس میں 60 ملین ڈالر تھے لیکن دیکھنا ہے 60 ملین ڈالر کس کے تھے ، کہاں گئے اور بینیفشری کون تھا؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی کو کہا ہمیں درخواست کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں مطمئن کریں، کیا 184/3کے دائرہ اختیار میں اس کیس کو سنا جاسکتا ہے ؟۔ درخواست گزار نے دلائل کے لئے مہلت کی استدعا کرتے ہوئے کہا مجھے ابھی تک سارے کاغذات نہیں دیئے گئے لیکن این آر او ججمنٹ میں کہا گیا کہ سوئس بینکوں میں دولت پاکستانیوں کی ہے اورآصف زرداری ساری دولت باہر لے گئے ، سوئس اکاؤنٹ میں موجود 60 ملین ڈالر پاکستان کے عوام کو ملنے چاہئیں، زرداری کے پیر نے بھی کہا کہ اس کے 60 ملین ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ ساری اخباری باتیں ہیں، اگر کوئی مواد موجود ہے تو بتائیں،آپ بتائیں دستاویزات کہاں پڑی ہیں، ہم سنی سنائی باتوں پر فیصلہ نہیں کریں گے ۔ فیروز شاہ گیلانی نے کہا یہ معلومات نیب نے دینی ہیں کیونکہ معلومات مختلف ریفرنسز میں پڑی ہیں۔آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا میرے موکل طویل ٹرائل کے بعد بری ہوئے ،60 ملین ڈالر ان کے نام پر نہیں تھے ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا این آر او کا معاملہ ماضی کا حصہ بن چکا، آئینی درخواست میں دوبارہ ٹرائل کرنا مناسب نہیں۔عدالت نے حکومتی وکیل کے زبانی دلائل سے اتفاق نہیں کیا۔درخواست گزار نے آصف زرداری، پرویز مشرف اور ملک قیوم کے بیان حلفی فراہم کرنے کی استدعا کی۔وسیم سجاد نے کہا میرے موکل ملک قیوم نے اثاثوں کی تفصیلات بیان حلفی کے ساتھ جمع کرادی ہیں۔ کیس کی سماعت تین ہفتے کے لئے ملتوی کردی گئی۔