اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے احتساب عدالتوں میں دائر ریفرنسز کے فیصلوں میں تاخیر کا نوٹس لیتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ جب کرپشن کے مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے تو کیوں نہ احتساب عدالتیں بند کرکے نیب قانون کو کالعدم قراردیدیں؟بدھ کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے لاکھڑا کول مائننگ پاور پلانٹ کی تعمیر میں بے ضابطگیوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران نیب کی طرف سے ریفرنس کے فیصلے میں تاخیر کا سخت نوٹس لیا اوراحتساب عدالتوں میں زیر سماعت ریفرنسز جلد نمٹانے کا حکم دیا ۔عدالت نے کرپشن کے مقدمات کے فوری فیصلوں کے لئے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کی ہدایت کی جبکہ پہلے سے قائم 5عدالتوں میں فوری طور پر ججوں کی تعیناتی کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ ایک ہفتے میں تعیناتی نہیں ہوئی تو سخت ایکشن لیا جائے گا۔عدالت نے چیئر مین نیب سے زیر التوا ریفرنسز کو جلد نمٹانے سے متعلق تجاویز بھی طلب کرلیں اور کیس کی مزید سماعت ایک ہفتے کے لئے ملتوی کردی ۔عدالت نے قرار دیا کہ سیکرٹری قانون متعلقہ حکام سے ہدایت لے کر120 نئی عدالتیں قائم کریں اور ججز کی تعیناتی کی جائے ۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل، پراسیکیوٹر جنرل اور سیکرٹری قانون کو طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ کرپشن کے مقدمات اور زیر التوا ریفرنسز کا 3ماہ میں فیصلہ کیا جائے ۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے کہ کرپشن کے مقدمات کے فیصلہ نہ ہونے سے نیب قانون بنانے کا مقصد ہی ختم ہو جائیگا۔چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ بیس بیس سال سے نیب کے ریفرنسز زیر التوا ہیں تو فیصلے کیوں نہیں ہورہے ؟ نیب کا ادارہ نہیں چل رہا، کیوں نہ نیب قانون کو غیرآئینی قرار دے دیں؟ ریفرنسز کا فیصلہ تو 30دن میں ہونا چاہئے ، لگتا ہے 1226زیر التوا ریفرنسز کے فیصلے ہونے میں ایک صدی لگ جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا نیب 2000ئسے ریفرنسز زیر التوا ہیں، کیا نیب اپنے قانون کی عملداری میں سنجیدہ ہے ؟