اسلام آباد ، لاہور (خبرنگار، نامہ نگار خصوصی) عدالت عظمیٰ نے قتل کے ملزم کوناکافی شواہد کی بنیاد پر 10سال بعد بری کرتے ہوئے کہا کہ جھوٹے گواہوں کا کہیں نہ کہیں ریکارڈ سے پتہ چل جاتا ہے ۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے قتل کے الزام میں عمر قید کے ملزم محمد رضوان کی اپیل منظور کرکے ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم کردیا ۔ ملزم محمد رضوان پر دیگر ملزمان کے ساتھ مل کر جاوید سلیمان کو 2009 میں قتل کرنے کا الزام تھا۔ چیف جسٹس نے کہا پنجاب میں قتل کے مقدمے میں ملزم کو سزائے موت نہ دی جائے تو عمر قید کی سزا دیدی جاتی ہے لیکن عمر قید کی سزا کے لئے بھی ٹھوس شواہد سے جرم کو ثابت کرنا ہوتا ہے ،جب جھوٹے گواہ بن جائیں تو کہیں نہ کہیں ریکارڈ سے پتہ چل جاتا ہے ،ایف آئی آر اور عینی شاہدین کے بیانات میں تضاد ہے ۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے اہلیہ کے قتل کے الزام میں عمر قیدکے ملزم شہزاد نوید کو 12سال بعد شک کا فائدہ دے کر بری کردیا ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا اس کیس کی بڑی عجیب کہانی ہے ،قتل کا کوئی ثبوت ہے نہ گواہ ۔ جسٹس منظور احمد ملک کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے لاہور رجسٹری میں 19 سال بعد سزائے موت کے ملزم غلام علی کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی ، عدالت نے قرار دیا کہ ملزم عمر قید سے زائد عرصہ کی سزا کاٹ چکا ہے اس لئے اسے رہا کیا جائے ۔ ملزم غلام علی کی اپیل پر سماعت کی ۔ علاوہ ازیں عدالت نے تہرے قتل کے ملزموں کی اپیلیں مسترد کرکے عمر قید کا فیصلہ بحال رکھا ۔ملزمان آفتاب، اشفاق اور عرفان پر 2016میں گجرانوالہ میں حامد، محسن اور زبیر کو قتل کرنے کا الزام تھا۔