اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمٰی نے کورونا وائرس کی تدارک کے لئے وفاقی، سندھ اور پنجاب حکومت کے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چاروں صوبوں ،وفاق ،آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان حکومت سے رپورٹ طلب کرلی ،چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل،جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد آمین احمد پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے ظفر مرزاکے حوالے سے کوئی تحریری آرڈر جاری نہیں کیا لیکن بین الصوبائی نقل وحمل پر پابندی کے پنجاب حکومت کے انتظامی آرڈر کو آئین کے آرٹیکل 15سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم کردیا ۔عدالت نے کوروناوبا کی تدارک کے لئے وفاق ، صوبائی حکومتوں ،آئی سی ٹی ،آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو بہتر اقدمات اٹھانے اور یکساں پالیسی وضع کرنے کا حکم دیا اور اس ضمن میں اگلی سماعت سے پہلے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی ۔عدالت نے سندھ اور پنجاب حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے اور قرار دیا ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے بتایا 11یونین کونسلوں میں اشیا خور و نوش کی دکانیں کھلی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا جن کے پاس پیسے نہیں لاک ڈائون میں وہ زندگی کی بنیادی ضروریات کیسے پوری کریں گے ، عدالت نے سندھ حکومت کی طرف سے 8ارب روپیہ کا راشن لوگوں میں تقسیم کرنے کے معاملے کی شفافیت کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے اورصوبائی حکومت سے مذکورہ رقم کے بارے میں جامع جواب طلب کرتے ہوئے قرار دیا آٹھ ارب روپے کا راشن تقسیم کیا گیا لیکن دستاویزی حساب وکتاب موجود نہیں۔ عدالت نے تحریری آرڈر میں قرار دیا سندھ میں حالات انتہائی مخدوش ہو رہے ،لوگ احتجاج کررہے ہیں لیکن حکومت کے پاس وبا سے نمٹنے کیلئے کوئی لائحہ عمل نہیں۔عدالت نے کورونا وبا سے متعلق قانون سازی نہ کرنے اور اس ضمن میں پارلیمنٹ کا اجلاس طلب نہ کرنے کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے اور آبزرویشن دی کہ درپیش صورتحال میں آئین کے آرٹیکل 54کے تحت صدر مملکت پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرسکتا ہے ۔چیف جسٹس نے کابینہ اراکین اور وزیر اعظم کے مشیروں کی تعداد کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے اور ریما رکس دیئے لگتا ہے وزیر اعظم کو حالات کا کچھ پتہ نہیں، یہ وقت حکومت کے ڈیلیور کرنے کا ہے ،اگر حکومت ڈیلیور نہیں کررہی ہے تو پھر کون ڈیلیور کرے گا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا معیشت پہلے ہی بہت کمزور ہے ، غریبوں کو بھوک سے مرنے نہیں دینا چاہیے ،اس لیے ہم نے کہا گائیڈ لائنز چاہئے ۔جسٹس عمر عطا بندیال اورجسٹس قاضی محمد آمین احمد نے کہاہمیں کچھ سوچنا ہوگا،لوگ بھوک سے تلملا رہے ہیں،ہجوم اکٹھا ہورہے ہیں،کچھ نہیں کیا تو بہت برا ہوجائے گا، صدر مملکت کو چاہئے پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرے ،اگر ہم نے ادراک نہ کیا تو کورونا وائرس ہمارے سیاسی نظام کی دھجیاں بکھیر دے گا۔جسٹس قاضی محمد آمین احمد نے کہا اس صورتحال میں بھی ایک پارٹی دوسری پارٹی کے خلاف پریس کانفرنس کر رہی ہے ،سب کو مل جل کر چلنا ہوگا، لوگوں کو گھروں میں بند کیا ہوا ہے ،لاک ڈاؤن کے نام پر ایک غریب آدمی کو سڑک پر جوتے مارے جا رہے ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف جنازے میں تمام لوگ پہلی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا سمجھ نہیں آ رہی کس قسم کی ٹیم کورونا پر کام کر رہی ہے ، اعلی حکومتی عہدیداران اور کئی کابینہ ارکان پر سنگین الزامات ہیں،معاونین خصوصی کی پوری فوج ہے جن کے پاس وزراء کے اختیارات ہیں، ریمارکس دینے میں بہت احتیاط برت رہے ہیں،عدالت کو حکومتی ٹیم نے صرف اعداد و شمار بتائے ، کیا ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے پارلیمان قانون سازی کرے گا، وزیراعظم کی کابینہ غیر موثر ہوچکی ہے ، معذرت کے ساتھ لیکن وزیراعظم نے خود کو الگ تھلگ رکھا ہوا ہے ، کیا پارلیمنٹیرینز پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے گھبرا رہے ہیں، وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنے اپنے راستے اختیار کیے ہوئے ہیں۔جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس میں کہا ملک میں معیشت کا پہیہ چلانا ہوگا، ہم لوگوں کو بھوکا مرنے نہیں دے سکتے ۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا لوگ حکومت کی بات نہیں مان رہے ۔چیف جسٹس نے کہا حکومت لوگوں کو سپورٹ کرے تو وہ بات مانیں گے ، لاک ڈاؤن کا مطلب کرفیو ہوتا ہے ، کیا کراچی کی متاثرہ 11 یونین کونسلز کے ہر مکین کا ٹیسٹ ہوا، سیل کی گئی 11 یونین کونسلزکی کتنی آبادی ہے ۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا متاثرہ یونین کونسلز کی آبادی کا درست علم نہیں تاہم متاثرہ یونین کونسل میں کھانے پینے کی دکانیں کھلی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا حکومت چاہے سو دفعہ لاک ڈاؤن کرے عدالت کو کوئی ایشو نہیں، لیکن لاک ڈاؤن لگانے سے پہلے حکومت کے پاس پلان بھی ہونا چاہے ۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا سندھ حکومت نے 8 ارب کا راشن تقسیم کیا لیکن غریب کو پتہ بھی نہیں چلا، کہاں اور کس کو راشن فراہم کیا، سندھ پولیس تو جے ڈی سی والوں کو لوٹ رہی ہے ، 10 روپے کی چیز دیکر 4 وزیر تصویر بنانے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا5 لاکھ 4 ہزار 80 خاندانوں کو 15 دن کا راشن دیا، ہر خاندان میں افراد کا تخمینہ لگا کر راشن دیا گیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پھر تو ایک من آٹے کی بوری چاہیے ہوگی ایک خاندان کے لیے ، آپ نے راشن دینے کا کہہ دیا ہم نے سن لیا، اب دیکھتے ہیں قوم مانتی ہے یا نہیں، سندھ میں لوگ سڑکوں پر ہیں، سندھ کے لوگ کہہ رہے ہیں حکومت نے ایک ٹکہ بھی نہیں دیا، بے چینی بڑھتی جارہی ہے ، یہ سوالات صرف سندھ کے لیے نہیں بلکہ چاروں صوبوں کے لیے ہیں، کے پی کے تو راشن کے بجائے نقد رقم بانٹ رہا ہے ۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاسندھ حکومت نے سامان کیسے خریدا ،کہاں سے خریدا اور کہاں گیا،راشن کن لوگوں کو دیا گیا۔ عدالت نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے تحریری آرڈر میں یہ بھی قرار دیا کہ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملک میں تیا ر کردہ ونٹی لیٹرز کی آزمائش کے بعد مقامی سطح پر ونٹی لیٹرز کی تیاری شروع کردی جائیں گی۔