کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اصولی طور پر درست ہوتی ہیں مگر حکمت و مصلحت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ان پر گفتگو نہ کی جائے یا کم از کم یوں کہہ لیجیے کھلے عام انہیں زیر بحث نہ لایا جائے۔ مثال کے طور پر اس پر ایک لمبی بحث چلی ہے کہ قومی ریاستوں کے تصور نے انسانیت کو کیسے بانٹا ہے‘ تاہم ایک خاص تناظر میں جب ہم قومی ریاست یا نیشن سٹیٹ کے خلاف مقدمہ بناتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں جغرافیائی حدود میں نہ بانٹوملت اسلامیہ ایک وحدت ہے تو پہلا ڈر یہ ہوتا ہے کہ کہیںہم مملکت خداداد کے خلاف کوئی فضا تو نہیںپیداکر رہے ۔ ہمارے بعض دوست بڑی سلاست اور عمدگی کے ساتھ یہ کہہ جاتے ہیں کہ ہم نے ملت اسلامی کو ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہے لیکن فی زمانہ اس بات کو کہنے میں ایک خاص احتیاط کی ضرورت ہے۔ پھر نیشن سٹیٹ تو ایک ایسا تصور ہے جس کے خلاف آواز اٹھانے والے اور اس کی پیدا کردہ خرابیاں گنوانے والوں کی کمی نہیں ہے۔ یہ تو میں نے ایک مثال سرسری سی دے دی مگر بے شمار مثالیں اس ذیل میں موجود ہیں۔ یہی صوبائی خود مختاری کا مسئلہ لے لیجیے‘ یوں لگتا ہے کہ وطن کو خدا کہنے والوں کے خلاف نکتہ نظر نے پاکستان بنایا‘ اب پاکستان کے اندر ہم وطن کو نہیں صوبوں کو خدا کہہ رہے ہیں دیکھنا صوبائی خود مختاری کی خلاف ورزی نہ ہو جائے‘ دیکھنا 18ویں ترمیم کے آبیگنے کو کوئی ٹھیس نہ لگ جائے‘ دیکھنا وفاق صوبوں کے حقوق غصب نہ کر لے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم ان حقوق کی بات نہیں کرتے جو صوبوں نے غضب کر رکھے ہیں۔ پنجاب میں آج کل یہ کہا جا رہا ہے کہ وسطی پنجاب نے جنوبی پنجاب کے حقوق پر چھاپہ مار رکھا ہے۔ پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ کراچی میں یہ احساس ہے کہ سندھ کے ہاتھوں کراچی کے حقوق سلب ہو رہے ہیں۔ یہ میں ہر صوبے کے بارے میں الگ الگ گنوا سکتا ہوں۔ قوم کو قومیت میں تقسیم کیا۔ پھر قومیتوں کو ذیلی شاخوں میں بانٹا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں بلوچ اور پٹھان بالکل الگ الگ طرح اپنا اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں۔ یہ ساری بات مجھے اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ آج پیپلز پارٹی سندھ کارڈ کو پھر چلا رہی ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ سندھ کا پانی چوری کیا جا رہا ہے۔ اس کی گیس اس سے چھینی جا رہی ہے۔ یہ بات ذرا دوسری طرف نکل گئی میں خود کو صرف اس بات پر محدود رکھنا چاہتا تھا کہ صوبے یوں خدا بن بیٹھے ہیں کہ انہوں نے وفاق سے جو وسائل اور اختیارات لئے ہیں وہ بلدیات یا اضلاع کو دینے کو تیارنہیں ہیں۔ مشرف کے زمانے میں یہی دلیل دی گئی کہ مرکزی آمرانہ حکومت نے صوبوں کو نظر انداز کر کے بلدیات کو براہ راست بااختیار بنا دیا ہے۔ یہ صوبے ختم کرنے کے مترادف ہے‘ اس لئے ناقابل قبول ہے۔ یہ جو کراچی کے اختیارات کی بات کی جاتی ہے بظاہر تو یہ کہا جاتا ہے کہ صوبائی حکومت تو سندھیوں کی بنتی ہے اور کراچی کی آبادی زیادہ تر غیر سندھیوں کی ہے۔ سندھی اس طرح مہاجروں اور کراچی والوں کے حقوق کھا جاتے ہیں تاہم یہ میں نے جو سندھی اور غیر سندھی کا لفظ استعمال کیا‘ اسے قانونی انداز میں چاہے کچھ اور کہہ لیجے یا ذرا احتیاط کر کے اندرون سندھ وغیرہ کی اصطلاحات استعمال کر لیجیے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کراچی میں یہی احساس پایا جاتا ہے۔ اب میں اسے آگے لے جانا نہیں چاہتا ۔ یعنی یہ بتانا نہیں چاہ رہا کہ اندرون سندھ اس بارے کیا کہا جاتا ہے۔ پھر ہم اپنے مقدمے کو طاقت دیتے ہیں دلائل مہیا کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہنا کہ کراچی ملک کا ستر فیصد ٹیکس دیتا ہے۔ ایک درست بیانیہ نہیں۔ ہم نے تمام ملک کے مالیاتی ادارے‘ بنک وغیرہ سب کراچی میں بنا لئے۔ اس پر تجارتی اداروں نے بھی اپنے مرکزی دفاتر آسانی کے لئے کراچی میں کھول لئے۔ کارخانہ یا کاروبار چاہے فیصل آباد میں ہو مگر دفتر کراچی میں۔ کسٹمز ڈیوٹی ہی نہیں سارے ٹیکس وہیں ادا ہوتے ہیں۔ یہ پورے ملک کے ٹیکس ہیں جو کراچی کے ایڈریس پر وصول کئے جاتے ہیں‘ مگر ہم نے شور مچا رکھا ہے کماتا سندھ ہے‘ کھاتا پورا پاکستان ہے ۔ کراچی کے لفظ کو بھی ہم سندھ سے بدل دیتے ہیں بعض اوقات بعض فیصلے کرتے ہوئے بھی اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ ہمارا صوبائی بیانیہ تقویت پکڑے ۔ایک مثال سن لیجیے۔ پاکستان میں سٹیل ملز لگانے کے لئے پہلے جگہ کراچی کے قریب بلوچستان میں گڈانی یا حب کو چنا گیا تھا۔ یہاں بھی بندرگاہ بننے کی گنجائش تھی۔ شپ بریکنگ تو اب بھی ہوتی ہے۔ پورٹ قاسم تک پہنچنے کے لئے کوئی 16کلو میٹر کا ایک تنگ سا سمندری چینل ہے‘ وہاں شاید بہتر صورت حال تھی مگر پورٹ قاسم اور سٹیل ملز کی جگہ کا موجودہ انتخاب اس لئے کیا گیا کہ سندھ میں ہے۔ بلکہ یہ خیال بھی بعض لوگوں کے ذہن میں تھا کہ اس طرح سندھ بندرگاہ کے معاملے میں کراچی کا محتاج نہیں رہے گا۔۔۔۔۔۔مثلاً یہ بحثیں میں نے خود سنی ہیں۔ یہ فیصلے بھٹو صاحب کے زمانے میں ہوئے تھے ان دنوں ان پر ایسے بہت الزام لگتے تھے۔ بہرحال یہ وقت گزر گیا۔ اب پورٹ قاسم اور سٹیل ملز(اندرون) سندھ سے زیادہ کراچی کا حصہ ہے بلکہ کراچی کا مسئلہ ہے۔ چلئے ایک اور بات کئے لیتے ہیں۔ نوے کی دہائی میں جب ان بحثوں کا بہت زور تھا۔ ایک صاحب میرے پاس ایک مضمون لے کر آئے۔ وہ بہت پڑھے لکھے شخص تھے۔ انتقال کر چکے ہیں اس لئے نام نہیں لے رہا۔ ایک بہت بڑے تدریسی اور تعلیمی ادارے کے اہم رکن تھے۔ ایک تفصیلی مضمون مجھے تھمایا کہ اسے چھپنا چاہیے جس میں بنیادی بات یہ تھی کہ کراچی کوئی ایسے نہیں بن گیا۔یہاں ملک کا 62فیصد کمرشل کریڈٹ لگا ہوا ہے۔ گویا پورے ملک کے سرمائے کا بڑا حصہ یہاں لگا ہے۔ پھر اس میں یہ بھی درج تھا کہ محنت کش شمال اور مشرق سے آئے۔ سرمایہ اور محنت دونوں پورے ملک کے اور اس پر دعویٰ ان کا جو سرحد پار سے آئے ہیں۔ میں نے مضمون چھاپنے سے معذرت کر لی اور انہیں برادرانہ اور دوستانہ مشورہ دیا کہ ایسی باتیں ابلاغ عامہ کے فورموںپر نہیں کرنا چاہئیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ پی آئی اے اور سٹیل ملز میں مختلف صوبوں کے افراد کی نمائندگی کتنی ہے۔ کتنے کراچی والے ہیں اور باقی بھی جن کے ڈومیسائل پنجاب اور سرحد کے ہیں۔اصل میں کراچی ہی کے ہیں۔ ان حالات میں مجھے یہ سب باتیں بڑی زہریلی لگیں۔ مگر مجھے یاد ہے کہ جب اس قسم کے اعداد و شمار میرے پاس آتے تو میں گھبرا جاتا کہ یہ لوگ ملک کو کس طرف لے جا رہے ہیں۔ مجھے اس بارے میں بھی کوئی شک نہیں کہ کالا باغ ڈیم نہ بننے میں بڑا حصہ اسی طرح کی سوچ کا ہے جو علاقائی تو ہے مگر حقیقت پسندانہ نہیں۔ ہم نے ملک کے لئے مسئلے خود کھڑے کئے ہیں ہمیں گروہوں اور قبیلوں میں صرف اس لئے بانٹا گیا ہے کہ ہم جھوٹ بولنے لگیں۔ اس بار پھرشور اٹھا ہے کہ پیپلز پارٹی اور بعض قوم پرست طبقے سندھ کارڈ دوبارہ استعمال کر رہے ہیں۔ویسے کب ہم نے اس طرح کے کارڈ استعمال نہیں کئے۔ کئی برس سے کراچی کارڈ بھی تو آخر چل پڑا تھا۔ یہ میں ساری بحث دوسری طرف لے گیا۔مجھے پہلے جنوبی پنجاب کی بھی بات کرنا چاہیے تھی۔ ہمارے بعض دوست اس بحث کو بار بار اٹھاتے ہیں ان کا بیانیہ سیاسی نہیں ہوتاٗ تاہم اس حوالے سے بھی اگر سچ کا اظہار کردیا جائے تو اچھا ہی ہوگا۔ ذرا اس بات کا تجزیہ ہونا چاہیے کہ خود پنجاب کے اندر کہاں کہاں کے وسائل کہاں کہاں استعمال ہوئے۔ گزشتہ برس شہباز کی حکومت دعویٰ کرتی تھی کہ جنوبی پنجاب کا پنجاب کے وسائل میں حصہ 29 فیصد بنتا ہے جبکہ وہاں 32 فیصد استعمال کیا گیا ہے اور بھی بہت کچھ زیربحث رہا ہے۔ اب تو خیر صرف بہاولپور اور جنوبی پنجاب کی بات ہورہی ہے‘ ایک زمانے میں سرائیکی صوبے کی بات ہونے لگی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سرائیکی کا لفظ غالباً 1962ء میں پہلی بار ایک ادبی کانفرنس میں استعمال ہوا تھا۔ ان دنوں اس کی سرحدوں میں پنجاب کے بعض مزید علاقے‘ سرحد اور سندھ کے کچھ اضلاع بھی شامل کئے تھے۔ سنجیدہ گفتگو کرنے اور اس کے تحت فیصلے کرنے میں کوئی حرج نہیں وگرنہ اسے صرف الیکشن کے قریب ایک سیاسی مسئلہ نہ بنا لیا جائے۔ بات کہاں سے چلی تھی‘ کہاں تک پہنچی۔ کہنا صرف یہ ہے کہ چند باتیں ایسی ہیں جنہیں کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے یا انہیں جب کہا جاتا ہے تو سیاسی تقاضوں کی وجہ سے غلط اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں یا یہ نہیں سوچا جاتا کہ اس کے اصل اثرات کیا مرتب ہوں گے۔ اب 18 ویں ترمیم کی آڑ میں کیا کیا باتیں ہورہی ہیں۔ خدا بھلا کرے ایک صاحب کا جو خود کو اس ترمیم کا چیمپئن کہتے ہیں‘ فرماتے ہیں وفاق کو کسی صوبے میں ہسپتال بنانے کا حق بھی نہیں ہے۔ یہ ہسپتال وفاق نے بنایا تو اب صوبے کے حوالے کردو۔ ہم اسے چلائیں گے تو نہیں‘ تباہ ضرور کردیں گے۔ وفاق اگر صوبے میں پیسے خرچ کرتا ہے تو ہم سے پوچھ کر‘ ہمارے ذریعے کرے اور صوبے اگر کسی علاقے میں خرچ کریں تو اس علاقے کی قیادت سے پوچھنا ضروری نہ سمجھیں یا ہمیں یہ بحثیں کرنا ہی نہیں چاہئیں یا پھر کھل کر میدان میں کود پڑنا چاہیے۔ الحمدللہ میں نے عمر کا زیادہ حصہ کراچی میں گزارا‘ پنجاب میں پیدا ہوا‘ پلا‘ بڑھا مجھے ایسی بے تکی باتیں سن کر بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ ہم مروت میں بہت سی باتیں گول کر جاتے ہیں۔ اب لگتا ہے ہمیں سچ بول دینا ہی چاہیے۔ کیا خیال ہے۔