چیئرمین نیب پریشانیوں کے بھنور میں ہیں۔ ان کے ضعیف الاندام کندھوں پر بقول خود انہی کے حکومت کو گرنے سے بچانے کی بھاری ذمہ داری ہی کیا کم تھی کہ متنازعہ انٹرویو پر تردیدی وضاحتوں اور وضاحتی تردیدوں کے چکر میں پھنس گئے۔ یگانہ نے کہا تھا، کہ خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا۔ زندگیوں اور موت کے فیصلے بھی کرنے نکلے تھے کہ ہاتھ پاؤں مارنے کی نوبت آ گئی۔ اِدھر اُدھر سے یہ خبریں بھی ان تک پہنچ رہی ہیں کہ نیب کے کارندے یہاں وہاں کے شہروں میں الیکٹرانک کی دکانوں پر بھی چھاپے مار رہے ہیں… بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ رمضان کے بابرکت مہینے میں ہر کوئی مال حرام کی ’’برکتیں‘‘ کما رہا ہے تو کسی خاص ادارے سے پیچھے رہنے کی توقع کیوں کی جائے۔ روپیہ کمانے کی دوڑ انسان کی سرشت میں ہے لیکن پاکستان میں ان دنوں لگتا ہے کہ یار لوگوں کی سرشت میں اس کے سوا کچھ اور ہے ہی نہیں۔ ڈالر کا معاملہ لیجئے۔ بہت سے لوگ ملوث ہیں لیکن اصل نام لینے کی کوئی جرأت نہیں کر رہا، کہا جاتا ہے کہ خان صاحب نے دساور سے جو ایک دو دیسی نگینے اپنی پارٹی کے منگوا کر وزارتوں میں کھپائے۔ انہوں نے خوب کام دکھایا۔ اربوں کھربوں کی یافت کی۔ کوئی شہر مشرق کا ہے تو کوئی بخارا کی نسبت رکھتا ہے، اتنے مقدس نگینے ہیں کہ کوئی نام ہی نہیں لیتا،زبان جل جانے کا خطرہ بھی تو ہے۔ ٭٭٭٭٭ ناجائز کمائی کا زور رمضان میں کچھ زیادہ ہوتا ہے اور رمضان میں تو ایسا زور باندھا ہے کہ کیا کہنے۔ اوپر سے لے کر ایمانداروں کی حکومت کے لوگ ایمانداری کے جوہر دکھا ہے ہیں۔ اس بار تو منشیات فروشوں کی ایسی بن آئی ہے کہ کسی اور کی نہ بن پائی۔ اول تو کوئی پکڑا ہی نہیں جاتا اور جو کوئی تھانیدار غلطی سے پکڑ لے تو کوئی نہ کوئی’’با تدبیر‘‘ تھانے پہنچ جاتا ہے اور چھڑا لاتا ہے۔ تھانیدار کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ دولت کمانے کی ہوس اس دور میں کچھ زیادہ رہی ہے اور کوئی روکے تو اسے نادان مانتے ہیں۔ یہ عملیت پسندی کا دور ہے اور یہ کہا جائے کہ میاں دم بھر کی زندگی(کلمح البصر) کے لئے دولت کے اتنے ڈھیر کیوں لگا رہے ہو‘ کوئی بھروسہ ہے کہ دل کا دورہ نہیں پڑے گا اور ارمان حسرتوں میں بدل دے گا تو کون سنے گا۔ وہ زمانہ گیا جب لوگ سعدی شیرازی کی منظوم حکایات سنتے تھے‘ سر دھنتے تھے اور دنیا کے فانی ہونے پر ایمان لاتے تھے اب کوئی نہیں سنتا بلکہ اکثر کو تو معلوم ہی نہیں کہ سعدی کون تھے اور ان کی حکایات کیا۔ بہرحال ایک قصہ سعدی پر جو بیتا‘ یاد آ رہا ہے۔ لکھنے میں کیا مضائقہ ہے۔ ٭٭٭٭٭ سعدی شیراز کے تھے وہیں کے جہاں کے حافظ بھی تھے اور جو کئی اور حوالوں سے بھی مشہور ہے۔ سعدی کی شہرت ان کی زندگی ہی میں چہار اطراف پھیل چکی تھی۔ ایک دن سعدی نے عراق کا رخ کیا۔ وہاں کے نواب اور رئیس ان کے استقبال کے لئے نکل آئے۔ جا بجا ان کے اعزاز میں پرتکلف ضیافتیں دی جانے لگیں۔ سعدی ہر ضیافت میں جاتے آداب مہمانی کا خیال رکھتے لیکن یہ کہنا نہ بھولتے کہ ہائے دعوت شیراز۔ سبھی رئیس رشک اور تجسس میں آ جاتے کہ خدا جانے شیراز کی دعوت میں ایسا کیا ہے جو ہماری ان پرتکلف دعوتوں میں نہیں۔ خیر سعدی سیر و ضیافت کے بعد وطن لوٹ گئے۔ ایک رئیس کو کچھ عرصے بعد فارس جانے کا اتفاق ہوا۔ سوچا شیراز چلیں تاکہ دعوت شیراز کا راز کھلے۔شیراز اب کی طرح تب بھی ایران کے بڑے شہروں میں سے ایک تھا اور فارس صوبے کا دارالحکومت لیکن بہرحال اتنا بڑا نہیں تھا۔ دس پندرہ ہزار آبادی ہو گی(اب تو بیس لاکھ کا شہر ہے۔) جاتے ہی پوچھا قبلہ سعدی کا دولت خانہ کہاں ہے لوگوں نے رستہ بتایا پوچھتے پچھاتے اس محلے میں جا پہنچا۔ کسی نے بتایا‘ وہہ ہے سعدی کا دولت خانہ۔ دیکھا تو تنکے پھونس کا ایک جھونپڑا نما گھر ہے۔ آنکھوں کو یقین نہ آیا۔ قریب جا کر دیکھا تو کاشانہ سعدی کی تختی لکھی پائی۔ حیران پریشان کھڑا رہا پھر دستک دی تو ایک لڑکی نکلی اور بتایا کہ خواجہ صاحب تو سیر کو نکلے ہوئے ہیں۔ تشریف رکھئے۔ بولا نہیں‘ جاتا ہوں لیکن ایک شعر کہے جاتا ہوں۔ آئیں تو عرض کر دینا۔ شعر یوں تھا ؎ سعدیا‘شیراز یا‘ نامت بس ست چوں بدیدم خانہ از خارو خس ست یعنی اوئے فلانیا‘ ڈھمکانیا بدنام اور یہ چھپرا؟ لڑکی نے کہا‘ جاتے ہو تو شعر کا جواب بھی بصورت شعر سنتے جائو: قافلہ رفتند و ماہم میر دیم از برائے چند روزہ ایں بس ست یعنی سبھی قافلے والوں کے ساتھ مجھے بھی چلے ہی جانا ہے اتنی چند روز کے قیام کے لئے یہ جھگی کافی ہے۔ اب کوئی یہ حکایت سنے تو حقارت سے بوسیدہ دبے معنے کہہ کر مسترد کر دے۔ لیکن سچ تو یہی ہے۔