کبھی کبھی سنجیدہ بات سمجھانے کے لیے کوئی خوشگوار واقعہ بھی سامنے آ جاتا ہے آج صبح یوں ہوا کہ حمید احمد خاں کی جگہ رشید احمد انگوی نے سورۃ التکاثر پر لیکچر دیا درمیان میں انہوں نے قبرستان کے ذکر پر اپنے ایک دوست کا واقعہ سنایا کہ اس نے ایک عالی شان مکان بنوایا اور دوستوں کو دعوت دی۔ چھت پر انتظام تھا اس مکان کے پیچھے قبرستان تھا۔ دوستوں نے کہا کہ اتنے زبردست مکان کے عقب میں قبرستان۔ ان کے دوست نے ہنستے ہوئے کہا جناب یہ بھی سہولت ہے۔ جانا تو ادھر ہی ہے۔ آخر سب کو ایک دن اسی آخری آرامگاہ کا حصہ بننا ہوتا ہے۔ انگوی صاحب نے ساتھ ہی اس پٹھان کا قصہ جوڑ دیا جس نے کسی سے قرضہ لینا تھا۔ بندہ مل نہیں رہا تھا۔ تنگ آ کر خان صاحب قبرستان میں آ کر بیٹھ گئے۔ کسی نے کہا ’’یہاں آنے کا کیا فائدہ؟‘‘ خان صاحب نے کہا ’’وہ آخر کتنا بھاگ لے گا ‘ آنا تو اس کو آخر یہیں ہے‘‘ رشید احمد انگوی بڑے مزے کے آدمی ہیں۔ ایک تو ان کا تعلق اس گائوں سے ہے جہاں سے احمد ندیم قاسمی ہیں۔ وہ حیوانیات کے استاد رہے ہیں اور وہ علم و حکمت و بصیرت سے مالا مال ہیں۔ آج انہوں نے سورۃ التکاثر کے ضمن میں فکر انگیز باتیں کیں تو میں نے سوچا کہ اپنے پیارے قارئین کے ساتھ شیئر کر لوں۔ اس سورۃ کا آغاز دو لفظوں کی آیت سے ہے۔ الھکم التکاثر ‘ یعنی تمہیں (مال کی)کثرت نے غفلت میں ڈال دیا یہ کس قدر مختصر اور جامع کلام ہے۔ اختصار اور اعجاز کی بہترین مثال ایک شاہکار دو لفظوں میں معنی کا جہان پنہاں ہے۔ اللہ نے قیامت تک آنے والے انسانوں کا مسئلہ بتا دیا کہ وہ دولت کی کثرت کے شوق میں غفلت کا شکار رہتے اور کہا کہ حتیٰ کہ وہ قبروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ الہاک کا ماہ لہو ولعب والا ہی ہے۔ یعنی کھیل تماشے میں پڑے رہے اور پھر ’’حتیٰ زرتم المقابر‘‘ اس کا ایک تو سیدھا سادا مطلب ہے کہ مال بڑھانے اور آسودگی حاصل کرتے کرتے اسی غفلت میں انسان اپنی قبر میں جا پہنچتا ہے۔ اس کا ایک مفہوم اور بھی ہے کہ زمانہ جہالت میں اس کثرت پر فخر ہوتا تھا۔ قبیلے کے قبیلے ایک دوسرے سے جھگڑتے تھے۔ گھوڑوں کی تعداد پر‘ جنگجوئوں کی گنتی پر یا دوسرے مال و اسباب پر موازنے اور قرآن نے اس کا پورا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ ان کا اپنے ہیروز کے ضمن میں مقابلہ ہو رہا تھا ایک قبیلہ کہنے لگا کہ اس میں قبروں کو بھی شامل کیا جائے کہ ان کے سورموں اور جنگجوئوں کی قبریں بھی گنی جائیں۔ آج کی دنیا میں بھی وہی کچھ ہو رہا ہے سٹیس کا مقابلہ‘ بینک بیلنس کا تقابل اور ایسے ہی بے شمار جھگڑے ۔ مگر وہی کہ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا‘‘ ویسے تو بندے کا ہے کیا: ایک ہچکی میں دوسری دنیا سعد اتنی سی بات ساری ہے انگوی صاحب بات کرتے کرتے اپنے مضمون کی طرف چلے گئے کہ جب اللہ کہہ رہا ہے کہ تم جلد جان لو گے تو ان کا دھیان اپنے علم الحیوانات کی طرف جاتا ہے کہ انسان کی صلاحیتیں کس قدر محدود ہیں جب سنتے ہیں تو ہم بہت تھوڑا سن رہے ہوتے ہیں بہت کچھ ہم نہیں سن سکتے اسی طرح جب ہم دیکھتے ہیں تو بہت کم دیکھ پاتے ہیں۔ اگر ہم سب کچھ سن سکتے اور سب کچھ دیکھ پاتے تو ہم برداشت ہی نہ کر پاتے‘ مثلاً اگر کھانے کے وقت ہمیں سارے جراثیم نظر آ جائیں تو ہم کھانا نہیں کھا سکتے۔ یہ بھی اللہ کی حکمت ہے کہ اس مائیکرو مخلوقات کو پوشیدہ رکھا یعنی غیر مرئی۔ پھر اللہ نے کہا کہ تم جلد جان لو گے لیکن اس سے پہلے ’’کَلّا‘‘ کہہ کر سب کچھ رد کر دیا ہے کہ سب کچھ وہم گمان ہے۔ وہی دام خیال والی بات۔ ہاں وہی ہے جو اعتبار کیا‘ اللہ نے پھر تاکید سے کہا کہ تم جان لو گے اور پھر کہا کہ یقین کی آنکھ سے سب کچھ دیکھو گے۔ یہ عین الیقین تو اللہ والوں کو زندگی ہی میں نصیب ہو جاتی ہے جیسے کہ صحابہ کرام ؓکہا کرتے تھے کہ اگر ان کے سامنے جنت آ جائے تو انہیں کوئی تعجب نہیں ہو گا۔ سب کچھ تو حضور انہیں اپنی زبان سے بتا چکے تھے۔ یہاں مجھے یاد آیا کہ انگوی صاحب نے معروف عالم دین عبدالقدوس قریشی کا ذکر کیا کہ ایک مرتبہ وہ رحیم یار خاں آئے تو ان کے اساتذہ نے کہا کہ اس شخص کو دیکھنا باعث فخر ہے۔ ان کے بارے میں بتایا کہ وہ قائد اعظم پر اعتراض کرنے والوں کے جواب تیار کر کے حضرت قائد کو دیا کرتے تھے۔ بہت بڑی ہستی تھے۔ ان کا واقعہ بیان کیا گیا عبدالقدوس قریشی بتاتے ہیں کہ جب وہ روس کی یونیورسٹی میں لیکچر دے رہے تھے تو ایک پروفیسر نے کہا ’’یہ آپ کیا پڑھا رہے ہیں کہ مرنے کے بعد یہ ہو گا اور وہ ہو گا آپ کے پاس دلیل کیا ہے؟۔ عبدالقدوس قریشی کہنے لگے ’’تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ سب کچھ نہیں ہو گا ۔اس پروفیسر نے کہا میرے پاس تو کوئی دلیل نہیں مگر دعویٰ آپ نے کیا ہے۔ عبدالقدوس قریشی نے کہا دیکھو وہ ہستی جن کو قتل کرنے کے لیے کفار مکہ بے تاب تھے اور وہ انہیں ایک نظر دیکھنے کے روادار نہ تھے مگر سارے دشمنیوں کے باوجود آپ کو صادق اور امین جانتے تھے۔ آپؐ دنیا کے سب سے سچے آدمی تھے جب اس سب سے سچے نے بتایا کہ جنت دوزخ اور حساب کتاب اور دوبارہ پیدا کرنے کے بارے میں تو کیسے یقین نہ کروں۔ میرے پاس تو یہ سب سے روشن دلیل ہے۔ آپ اس کے توڑ میں دلیل لائیں۔ اللہ بھی تو اپنی صفات سے پہچانا جاتا ہے۔ وہی جو کہا گیا تم جن و انس اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ اللہ کی نعمتوں کا شمار ہو ہی نہیں سکتا۔ سورۃ التکاثر کے آخر میں کہا جا رہا ہے کہ اس دن تم سے نعمتوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی۔ نعمتوں کا شکرانہ ضروری ہے اور صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے خلق خدا کو فیض پہنچائو۔ میں نے جو کچھ سنا‘ اپنی بساط کے مطابق آپ کے سامنے پیش کر دیا کہ خیر کے ابلاغ میں اپنا حصہ ڈال سکوں۔ میرے پیارے معزز قارئین ! ایک لمحے کے لیے اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں کہ اقتدار ‘ دولت‘ طاقت اختیار اور جاہ کے لیے لوگ کیسے دست و گریباں ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور خود کو بہتر بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ منیر سیفی یاد آ گئے: سب چالیں چل بیٹھا ہوں اب مٹی کی باری ہے مگر غالب بھی تو ٹھیک کہتا: ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا‘ حرص و ہوس کے گھوڑے سے اتر کر سوچنا ضروری ہے۔ ہمارے ساتھ بھی بیٹھو جو دو گھڑی کے لیے۔