ہر صحافی کی طرح صبح سویرے اخبارات کا مطالعہ کرنا میری بھی عادت میں شامل ہے۔ ٹی وی چینلوں کی بے ہنگم بھیڑ میں بھی مجھے اخبار سے ہی خبر پڑھ کر تسلی ہوتی ہے۔ اگرچہ سارا دن چینلوں کی بریکنگ نیوز بھی کانوں میں پڑتی رہتی ہیں لیکن آخری تسلی اگلے روز کا اخبار پڑھ کر ہی ہوتی ہے اور اخبار بھی اصلی اخبار۔ انٹرنیٹ والا نہیں۔ یہ اور بات ہے انٹرنیٹ پر اردو اور انگریزی اخبارات کا مطالعہ بھی اب روز کے معمولات میں شامل ہے۔ آج کا دن ایسا ہوا کہ اخبار نہیں آئے۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ انٹرنیٹ کی سروس میں تعطل آ گیا۔ موبائل فون کا وائی فائی بھی اس قدر آہستہ تھا کہ گوگل پر مطلوبہ نتائج آنے میں سکینڈز ‘ منٹوں میں بدل گئے اور اس سے عجیب سی الجھن ہونے لگی یہ کہ سلو انٹرنیٹ برداشت نہیں ہوتا۔اوپر سے یہ ہوا کہ آج بازار سے بھی اخبار لانے کا اہتمام نہ ہو سکا۔ صبح اگرچہ بہت مصروف تھی مگر ایک عجیب خالی پن سے بھری ہوئی تھی۔ ظاہر ہے آج کی صبح نے اخبار کا ذائقہ جو نہیں چکھا تھا۔ سو میں اسی خالی پن کے ساتھ آج کالم لکھنے کو بیٹھی ہوں اخبارات کا مطالعہ کرنا ایک عادت سی بن گئی ہے ورنہ خبروں کا کیا ہے۔ آج بھی وہی خبریں ہوں گی غریب شہر کے وہی حالات ہوں گے اور امیر شہر کی وہی کہانیاں ہوں گی۔ اخبارات کی تمام شہ سرخیاں اہل اقتدار و اہل اختیار کے بیانات سے سجی ہوں گی اور خلق خدا پر گزرتے عذاب کا درد اخبار کے کونوں کھدروں میں کہیں کہیں یک کالمی خبر کی صورت موجود ہو گا اور یہ غریب شہر کے دکھوں اور حالات زار کو بیان کرتی یہ یک کالمی خبریں بھی بس اخبار تک محدود رہیں گی، رات کے پرائم ٹائم میں ٹی وی چینلوں پر صرف ان سیاسی بیانات پر دھواں دار بحثیں ہوں گی جن کا حاصل حصول صرف ریٹنگ ہو گا۔ المیہ یہ ہے کہ اس ریٹنگ کے لئے ضروری ہے کہ پروگراموں چند باتیں متنازعہ ہو جائیں‘ گفتگو‘ تہذیب اور شائستگی کے دائرے سے ذرا باہر نکلے‘ پینل میں شامل افراد ایک دوسرے پر دھواں اڑاتے الزامات لگائیں۔ شعلہ بیانی اور دشنام طرازی کا بے مثال مظاہرہ ہو تو پھر اس پروگرام‘ اس اینکر اور اس ٹی وی چینل کی ریٹنگ کے گراف کو اوپر جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پہلے ٹاک شوز کی مجبوری تھی کہ ان کے پروگرام میں بڑبولے ‘ منہ پھٹ‘ قسم کے لوگ شرکت کریں تاکہ بات تہذیب سے نکلیں، ٹکرائو ہو اور ریٹنگ بڑھے۔ لیکن اب ایسے لوگ حکومت کی مجبوری بھی بنتے جا رہے ہیں۔ بات کو سلیقے اور قرینے سے کرنے والا تو اب سیاست میں بھی ناکام ہے۔ پنجاب کے ایک وزیر جب بھی بات کریں گے تہذیب کے دائرے سے باہر نکل کر‘ ایسی کہ مخالف کو آگ لگ جائے۔ وزیر اطلاعات کو حکومت کا چہرہ سمجھا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کا پنجاب میں چہرہ فیض الحسن چوہان ہیں اور وفاق میں فردوس عاشق اعوان ۔فردوس عاشق اعوان ان سے کچھ بہتر ہیں کام ان کا بھی وہی ہے باتیں وہ بھی کھردری کرتی ہیں۔ بس تسلی اور آرام کے ساتھ جلتی پر تیل ڈالتی رہتی ہیں۔سوچنے کا مقام ہے کہ ہماری سیاست کس گھاٹی تک آ چکی ہے کہ جہاں شائستگی‘ سلیقہ اور تہذیب ہی قابل قبول نہیں۔ ہمارے ملک کے لوگوں کا مزاج ہے کہ یہاں لوگ اپنی روز مرہ کی گفتگو میں سیاست کو ڈسکس کرتے ہیں۔ سیاسی معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں مگر اتنی کہ اپنے اپنے سیاسی خدائوں کے جھوٹ کو سچ سمجھتے رہیں۔ سیاسی رہنمائوں کو یہاں سیاسی بتوں کا درجہ حاصل ہے۔ سو ان کے سیاسی بت جو فرما دیں وہ مستند ہوتا ہے۔ ان کے سیاسی خدا اپنی سیاسی پارٹی میں جس کلچر کو فروغ دیں‘ وہی رنگ ان کے فالوئورز میں جھلکتا ہے۔ سیاسی مخالفین کی بدنامی اور دشنام طرازی‘ ہمارے سیاسی ماحول کا ہمیشہ سے حصہ رہی ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی نوے کی دہائی کی سیاست اس بات کی گواہ ہے ، بدتہذیبی کے اس سیاسی کلچر کو اس بدصورت سطح تک پہنچانے میں سیاستدانوں کا کردار اہم ہے۔ کانٹوں کے جواب میں کانٹے بچھائے جاتے رہے اور آج یہ حال ہے کہ پورا سیاسی ماحول کانٹوں سے بھرا ہے۔ شائستگی اور تہذیب اپنا بوریا بستر گول کر چکی۔ ایسے ہی رویوں کا مظاہرہ دن رات لوگ سوشل میڈیا پر کر رہے ہوتے ہیں۔ کوئی کسی کی بات کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اپنے سیاسی خدائوں کے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے سیاسی فالوورز کے منہ سے لگاتار اور مسلسل جھوٹ نکلے۔۔ سیاست کے اس بازار میں صرف جھوٹ بکتا ہے۔ سچ کا خریدار کوئی نہیں کیونکہ وقتی طور پر سچ ان کے گھاٹے کا سودا ہے۔ سچ بولیں تو وزارتوں کے قلم دان نہیں ملتے۔ اور اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ تہذیب ‘سلیقے اور شائستگی سے دور رہیں۔سیاست کرنی ہے تو سچائی، ہمدردی اور انسانیت سے پرہیز کریں۔یہی جھوٹ آج کا سب سے بڑا سچ ہے۔