میاں نواز شریف کی ایک تصویر اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ لندن کے ایک ریستوران میں پچھلے دنوں سوشل میڈیا کی زینت بنی جس کے بارے میں انکے نقادوں کا کہنا تھا کہ وہ علاج کرانے گئے ہیں اور وہاں کھابے کھا رہے ہیں، حالانکہ اس تصویر میں کھانے پینے کی کوئی شے نظر نہیں آ رہی۔ بہر حال سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے اسکو کوئی بھی رنگ دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جواب میں انکے صاحبزادے نے فرمایا کہ انکی مسلسل گھر میں رہنے سے طبیعت بوجھل ہو رہی تھی اس لئے ہوا خوری کے لئے انکو باہر لے کر گئے تھے۔یہ تصویر اور اس طرح سے بہت سی تصویریں اور ویڈیوز ایشو کیوں بن رہی ہیں۔اس حوالے سے ایک ماہ قبل بیانیوں کی تیاری اور پراپیگنڈے کے حوالے سے لکھا تھا کہ کہ ہم ایک تانا بانا بن کر اپنے سیاسی یا کسی بھی فائدے کے لئے کچھ مسخ شدہ حقائق کو بوگس دلیلوں کی بنیاد پر سچ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور جب اسکا سامنا اصل حقائق سے ہوتا ہے تو ہم سٹپٹا جاتے ہیں اور کسی نئے بیانیے کی تیاری میں مصروف ہو جاتے ہیں۔سچ اور جھٹ کی لڑائی ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گی لیکن اس وقت سیاسی میدان میںدنیا جس صورتحال سے دوچار ہے اسکے لئے ہاورڈیونیورسٹی کے فیلو لی میکنٹائر نے’’ سچائی کے بعد کی دنیا‘‘ کی اصطلاح ایجاد کی ہے ۔انکی کتاب Post-Truth جو 2018 ء میں شائع ہوئی ،میں انہوں نے بہت عمیق مطالعہ کیا ہے کہ کس طرح سے جھوٹ اور ڈس انفارمیشن میں تھوڑا سا سچ ملا کر ایک سینڈوچ بنا یا جاتا ہے جس کی توجیح بھی اسکو تشکیل دینے والے کا پاس ہوتی ہے اور وہ اپنے ان مخاطب حضرات کو پیش کر دیتا ہے جو اسکو دل و جان سے قبول کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔انکے خیال میں بیانیے اس طرح سے تشکیل دئے جاتے ہیں جس میںحقیقت سے زیادہ محسوسات موجود ہوتے ہیں اور مخاطب کی نفسیاتی کمی بیشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے موئثر طریقے سے پیش کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاتے ہیں۔اگرچہ لی میکنٹائل کی تحقیق سے اختلاف رکھنے والے بھی ہیں جنکے خیال میں ایک خاص قسم کے لوگ ماڈرن ازم کے حق میں نہیں ہیں اسلئے وہ سائنسی حقیقتوں کی آڑ میں دوسروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں بیانیوں کی جنگ جاری ہے اور خاص طور پر صدر ٹرمپ کی طرف سے ’’فیک نیوز‘‘ کی اصطلاح کے بعد اس پر خاصی بات بھی ہو رہی ہے اور تحقیق بھی کہ سوشل میڈیا کے تعارف کے بعد کس طرح سے بیانیے تشکیل پاتے ہیں اور اس میں روایتی میڈیا کیوں نظر انداز ہو گیا ہے جوکہ کسی حد تک خبر کے حوالے سے ایک ساکھ رکھتا ہے اور اشا عت سے پہلے کسی بھی خبر یا بیانیے کوتصدیق کے کچھ مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس میں سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ایسے معاملات جن پر سائنسی تحقیق موجود ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک میں کسی ایک پراپیگنڈے کے نتیجے میں ان سائنسی حقائق کو ٹھکرا دیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر پولیو کے مرض کی بات اگر کی جائے تو اس بارے میں سائنسی تحقیق کے ساتھ ساتھ ہمارے سامنے چلتے پھرتے لوگ ہیں جو پولیو کا شکار ہوئے ہیں لیکن پھر بھی ایک خاص طرز سے استوار کیا گیا بیانیہ جس میںکسی طبقے کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں تھا لیکن ایک مخصوص ملک یا حکمران کے خلاف نفرت کو فروغ دینے کیلئے اسکو استعمال کیا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میںجب انہوں نے ملک میں روٹی پلانٹ لگانے کا آغاز کیا تو ان روٹیوں کے حوالے سے ویسا ہی بیانیہ اپوزیشن کی طرف سے متعارف کرایا گیا جو پولیو کے قطروں کے حوالے سے اکثر و بیشتر سننے میں آتا ہے۔ سیاسی میدان میں نظریاتی برتری کے لئے میں اسکا بے تحاشا استعمال ہو رہا ہے۔ اگر دنیا کا جائزہ لیں تو صدر ٹرمپ کی طرف سے حالیہ الیکشن مہم کا آغاز قاسم سلیمانی کو نشانہ بنا کر کیا گیا۔ ایران اور قاسم سلیمانی کے ارد گرد وہ اپنا بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں۔ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں یہ تو سال کے وسط میں اندازہ ہو گا اگر وہ ری پبلکن کی نامزدگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیںاور اس بیانیے کی حتمی کامیابی انکی الیکشن میں دوسری مرتبہ کامیابی کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ وقتی طور پر جھوٹ سچ کی آمیزش سے تیار بیانیے ضرور فائدہ دیتے ہیں لیکن طویل عرصے تک حقائق سے نظریں چراتے رہنا ممکن نہیں ہے۔ جس طرح اب افغانستان اور عراق میں امریکی بیانیے کو مشکل کا سامنا ہے اس سے اندزہ لگانا آسان ہے کہ آپ بھلے سا لہا سال لوگوں کو اپنی فتوحات کے جعلی قصے سناتے رہیں لیکن جب حقیقت سامنے آتی ہے تو پھر منہ چھپانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین کے لئے بھی اس معاملے میں سوچنے کو بہت کچھ ہے۔ عوام کو جعلی بیانیوں سے بیوقوف بناتے بناتے کہیں وہ خود تو Irrelevent نہیں ہوتے جا رہے۔خاص طور پر حکومت وقت کے لئے اب امتحان شروع ہو چکا ہے ، احتساب کے نعرے لگاتے لگاتے وزیر اعظم سمیت سب کے گلے خشک ہو چکے ہیں لیکن اسکا نتیجہ ڈیل اور ڈھیل کی صورت میں نکلتا چلا جا رہا ہے۔پاکستان کی سیاسی حقیقتیں انکا منہ چڑا رہی ہیں۔ابھی تو غریب کو اوپر اٹھانا ہے، لوٹا ہوا مال واپس لا نا ہے، انصاف مہیا کرنا ہے، قانون کے سامنے سب کو برابر کرنا ہے، دنیا بھر سے سرمایہ کاروں کو پاکستان لانا ہے۔صرف معیشت کی جزوی بحالی سے کام نہیںچلے گا۔ کچھ ٹھوس کام سر انجام دینے کی ضرورت ہے ۔ روزمرہ کی ہرزہ سرائی سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ سچائی کے بعد کی دنیا اب ختم ہونے والی ہے اور جب جھوٹ کے بعد کی دنیا شروع ہو گی اور آپ کے پاس سچ سنانے کو نہیں ہوگا تو سوشل میڈیائی جنگجو بھی بھی کچھ نہیں کر پائیں گے۔ حقیقت کی دنیا میں واپس آجائیں تا کہ آپکا بھی بھلا ہو اور عوام کے لئے بھی کوئی خیر کی صورت نکلے۔جنکی تصویروں پر آپ نوٹس لے رہے ہیں وہ تو جھوٹ کے بعد کی دنیا کا سامنا کر رہے ہیں اور اپنے بیانیے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔