ایک عام آدمی کی زندگی سے لے کر اہل اختیار واہل اقتدار کے معاملات تک اخلاقی اقدار کا بحران ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے، ایک عام آدمی ہو یا بھانت بھانت کے سیاسی رہنما گفتار کی حد تک ہر شخص۔اعلی اقدار کا جھنڈا اٹھائے پھرتا ہے۔ رمضان المبارک کے روزے رکھنے والے بھی بے شمار ہیں، اس با برکت مہینے میں مسجدوں میں ایک طرف رش بڑھ جاتا ہے تو دوسری طرف اسی مہینے میں ہوس زر، ناجائز منافع خوری اپنی بدترین شکل میں سماج کو یرغمال بناتی نظر آتی ہے۔اس کے علاوہ بھی گیارہ مہینے بدیانتی کے مظاہر ہر جگہ نظر آتے ہیں، عالمی سطح پر پاکستانیوں نے اپنا امیج ایک جھوٹ بولنے والی قوم کا بنا رکھا ہے جو آسانی سے دھوکا دے سکتے ہیں،کوویڈ کے بعد دنیا بھر میں آن لائن بزنس خریداری میں اضافہ ہوا دنیا کے پانچ ملک ایسے ہیں جہاں پر آن لائن خریداری میں دھوکہ اور فریب سب سے زیادہ ہے اور ان پانچ ملکوں میں پاکستان کا نمبر تیسرا ہے۔ ابھی حال ہی میں یہ خبر آئی تھی کہ ایمازون نے پاکستان کے 13 ہزار اکاؤنٹ بددیانتی اور دھوکہ دہی کی بنیاد پر معطل کردیے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں ہر دوسرا آن لائن دکاندار اپنے خریدار کے ساتھ دھوکا کرتا دکھائی دیتا ہے۔استثنیٰ موجود ہے۔آن لائن بہت سی قابل اعتماد ویب سائٹس موجود ہیں جو اپنے گاہکوں کو وہی چیز بھیجتی ہیں جو پروڈکٹ آن لائن دکھاتے ہیں مگر بیشتر کے کاروبار جھوٹ اور دھوکے پر کھڑے ہیں۔ میں نے چند روز پہلے کچن کی ایک پروڈکٹ آن لائن منگوائی۔ آرڈر موصول ہوا یہ تو اشتہار میں دکھائے جانے چوپر کے مقابلے پر بہت ہی غیر معیاری تھا۔ پہلے ہی استعمال سے اس کے بلیڈز ٹوٹ گئے ۔ یہ پاکستانیوں کے کارنامے ہیں کہ اشتہار میں اعلی معیار کی نمبرون پروڈکٹ دکھا کر گاہک گھیرنے کا کام کرتے ہیں لیکن خریدار کو 2 نمبر چیز بھیجتے ہیں۔اس کے بعد اپنا نام پتہ غلط لکھتے ہیں کوئی ایسا ایڈریس نہیں ہوتا جہاں شکایت کی جاسکے یا اپنے ضائع ہو جانے والے پیسوں کا رونا رویا جائے۔ یہ فراڈ میری ایک دوست کے ساتھ ہوا بظاہر آن لائن یہ ایک مشہور برانڈ کی ویب سائٹ تھی جو لڑکیوں کے کڑھائی والے کرتے کتے دا کاؤنٹ پر بیچ رہے تھے تھے تین کرتے پسند کیے آن لائن آرڈر کیا یا ان کے ساتھ واٹس ایپ پر سیلر کا رابطہ رہا چند دن کے بعد انھوں نے اپنا پیکٹ وصول کرکے قیمت ادا کی۔ پیکٹ کھولا تو اس کے اندر سے پرانے ردی استعمال کپڑوں کے بدبودار بر آمد ہوئے۔ جسے دیکھ کر میری دوست سر پیٹ کر رہ گئیں۔اتنا بڑا دھوکہ! انہوں نے فورا واٹس ایپ نمبر پر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تو نمبر بند تھا۔جب کہ ان کی آن لائن دکان بھی سرچ کرنے پر کہیں نہیں ملی۔آن لائن خریداری کرنے والے عموماً چیک کرتے ہیں کہ کسی بھی پروڈکٹ کا ریویو کیسا ہے۔ اگر تو کسٹمر ریوو 4.5 سٹارز ہوتو خریدار سمجھتا ہے کہ وہ بھروسے سے خریداری کر سکتا ہے۔ ایسا بھی ہو رہا ہے کہ کسٹمر ریووز بہترین ہونے کے باوجود منگوائی گئی پروڈکٹ وہ نہیں ہوتی جو بیچنے کے لئے دکھائی جاتی ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ ریویو بھی یہاں خریدے جاتے ہیں۔ اس لیے گاہکوں کی رائے دیکھ کر پروڈکٹ خریدنے والے بھی خبردار رہیں کہ پروڈکٹ کی تعریف کرنے والے نان کسٹمر لوگ ہیں جن کا پیشہ پیسے لے کر پروڈکٹ کی جھوٹی تعریفیں کرنا ہے۔آف لائن ایک چیز کی قیمت اگر دو سو روپے ہی۔ تو کچھ آن لائن بیچنے والے اسی پروڈکٹ کو اٹھ سو میں بیچنے کی کوشش کرتے ہیں اس ناجائز منافع خوری پر ڈسکاؤنٹ کا اعلان بھی ہوتا ہے۔ پاکستان میں جھوٹ کا کاروبار عروج پر ہے۔ ہمارے تمام سیاسی سماجی اور معاشی مسائل اسی جھوٹ کی نحوست سے پیدا ہوتے ہیں۔ حدیث مبارکہ ہے کہ جب کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تو رحمت کے فرشتے اس سے چالیس میل دور چلے جاتے ہیں۔یہاں تو جھوٹ کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہے۔ عام آدمی سے لے کر ہر نوع کی اہل اختیار واہل اقتدار اشرفیہ سب۔جھوٹ بولتے ہیں۔ عالمی سیاست سے لے کر قومی اور مقامی سیاست تک یہاں جھوٹ اور بدیانتی کا راج ہے، تعلیم کے سولہ سال پڑھائی اور نمبر لینے کی اندھی دوڑ میں اخلاقی تربیت ویسے ہی راندہ درگاہ ہوچکی ہے ایسے میں کس کو اس سے غرض دیانت، سچائی اور کردار کی انٹیگریٹی integrity بھی کوئی چیز ہے، صاحبو یہ بحران بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔اب ہمیں اس پر سوچنا چاہیے ہمارے ملک کے سماجی سائنس دانوں کو مل بیٹھنا چاہیے یہ جو ایک لفظ ہے ایمانداری اور دیانت اس کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔اگر اپنے سماج کو بچانا ہے پاکستان کے مستقبل کو روشن کرنا ہے تو اسے ایک مضمون کی صورت میں نصاب کا حصہ بنا دینا چاہیے۔ اسکول میں چھوٹے بچوں کو اخلاقی اقدار سکھائی جاتی ہیں ، لیکن جوں ہی ان کی جماعت آگے بڑھنے لگتی ہے وہ بڑے ہوکر عملی زندگی میں اپنا حصہ ڈالنے کے قابل ہونے لگتے ہیں تو ان کے نصاب سے اخلاقی اقدار کی تعلیم کو ختم کردیا جاتا ہے ۔ہائی کلاسسز میں، کالج میں یونیورسٹی کی سطح پر دیانت ، ایمانداری، کردار کی انٹیگریٹی کو بطور مضمون پڑھنا چاہیے کیونکہ یہ وہ عمر کی سطح ہے جس میں شعور چیزوں کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے۔ اور طالبعلم آہستہ آہستہ عملی زندگی میں بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔ دیانت اور امانت داری کیا ہے؟ کامیاب زندگی کے لیے کردار کی انٹیگریٹی کیا چیز ہے؟ ہر سطح کے تعلیمی نصاب میں ان موضوع کو شامل کرنا چاہیے۔ عملی تربیت کے مراکز ، بزنس سکھانے کے بڑے بڑے ادارے یا آن لائن کاروبار سے سکھانے کے سنٹر ، معاملات زندگی میں دیانت کو فروغ دینے کی تربیت پر زور دیں۔اس موضوع پر میڈیا گفتگو کا آغاز ہو ، سیمینارز ہونے چاہیے۔ اور اس سوچ کو ایک سماجی تحریک میں ڈھل کر ہمارے روز مرہ مکالمے کا موضوع بننا چاہیے۔کیونکہ پاکستان کے تمام مسائل میں اخلاقی بحران ہے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔