حکومت نے سمارٹ لاک ڈائون کے نادر روز گار منصوبے کی شاندار کامیابی کے بعد اس سے بھی بڑھ کر نوادرہ روزگار منصوبے ’’ہاٹ سپاٹ‘‘ لاک ڈائون کا اعلان کیا ہے۔ یعنی ان مقامات پر سماجی فاصلے کی پابندیاں سخت کی جائیں گی جہاں درد حد سے گزر کر پہلے ہی دوا بن چکا ہے۔اس زحمت کی بظاہر ضرورت نہیں کہ ان علاقوں میں جو ہونا تھا ہو چکا‘ اب کیسا ہی سخت لاک ڈائون کر لیا جائے‘مرض کا وائرس تو گھر گھر پہنچ چکا۔ اس لئے ہاٹ سپاٹ کا دائرہ تنگ کرنا پتھر میں دھان کی پنیری لگانے کے سوا کچھ نہیں۔اہمیت ان علاقوں کی ہے جہاں کورونا ابھی زیادہ نہیں پھیلا انہیں پابندیوں سے چھوٹ دے کر دراصل انہیں بھی ہاٹ سپاٹ بنانے کا عزم کیا جا رہا ہے۔ ہاٹ سپاٹ لاک ڈائون کا مطلب ایک طرح سے یوں ہے کہ چنیدہ مقامات پر پابندیاں سخت ہوں گی۔ دوسرے لفظوں میں سلیکٹڈ مقامات کیا غضب کا حسن اتفاق ہے۔ ٭٭٭٭٭ پاکستان میں کورونا کیسے آیا؟یہ کہانی اب عام ہے پاکستان میں کورونا کا یہ مہیب پھلائو کیسے ہوا؟ یہ حکایت بھی عام ہو گئی ہے۔ سنتا جا اور اکڑتا جا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو کورونا کو لائے انہیں نے پھیلانے کی ذمہ داری بھی ادا کی اور اس خوبی سے ادا کی کہ کیا کہیے۔ بس یہی کہ ذمہ داری ادا کرنے کا حق ادا کر دیا۔ لگتا ہے جب یہ قدسی صفت کورونا کو پھیلا رہے تھے ۔ تبھی ان کے ذہن رسا نے سوچ لیا تھا کہ وقت آنے پر کیا کہنا ہے۔ یہی کہ عوام بے شعور ہیں‘ ایس او پیز کی پابندی نہیں کی۔ اب بھگتیں۔ ارے واہ کیا کہنا۔ سینکڑوں بار کا لکھا پڑھا سنا شعر یاد آ رہا ہے کہ : درمیان قعردریا تختہ بندم کردہ ای بازمی گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش لاک ڈائون ہونے ہی نہیں دیا’’اشرافیہ‘‘ نے بقول حکومت کے لگا دیا تو اسے ناکام بنا دیا۔سمارٹ لاک ڈائون کی دھجی نے سماجی قربتوں کے عریاں جسم پر اٹکا دی اور پھر عوام کو نفسیاتی ترغیب بھی دی کہ وہ لاک ڈائون کی پروا کریں نہ کرونا کو خاطر میں لائیں۔ یاد ہو گا کسی نے فرمایا تھا کہ کورونا محض ایک فلو ہے۔ نزلہ زکام کی طرح جسے بھی ہو گا دو چار دن میں ٹھیک ہو جائے گا۔ خدا کے لئے ٹیسٹ کرانے مت دوڑ پڑنا۔ ایک درجہ دوئم کی مہمان ہستی نے فرمایا تھا کہ کورونا سے ہونے والی اموات کی اوقات ہی کیا۔ اس سے زیادہ تو ٹریفک حادثات میں مر جاتے ہیں۔ ایک سے ایک مہمان اور مہا پرش ایک سے ایک بیان دیتا رہا ہے۔ کل ہی ایک اور نے فرمایا فکر کی کوئی بات نہیں ہمارے ہاں مرنے والوں کی تعداد بھارت سے کم ہے۔ گنتی کی حد تک تو بجا فرمایا۔ ہمارے ہاں روزانہ سو سے زیادہ ہے تو بھارت میں یہ گنتی لگ بھگ چار سو۔ یعنی چار گنا زیادہ۔ لیکن شرح کی بات وہ گول کر گئے۔ بھارت کی آبادی ہم سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔ وہاں آٹھ سو لوگ مریں تو ہمارے برابر ہوں گے چار سو کا مطلب ہے وہاں ہماری نسبت اموات کی تعداد گر رہی ہے۔ ٭٭٭٭٭ عظیم رہنما نے فرمایا‘ ہماری آبادی بہت زیادہ ہے اس لئے لاک ڈائون نہیں کر سکتے‘ یہ تجربہ صرف کم آبادی والے ملکوں میں ہی کامیاب ہو سکتا ہے۔ کم آبادی والے ملکوں سے مراد شاید چین ہے جہاں لاک ڈائون نے کورونا کو کچل کر رکھ دیا۔ واقعی ڈیڑھ ارب کی آبادی والا چین ہی یہ تجربہ کامیاب کر سکتا تھا۔ ویسے کم آبادی سے آپ کی کیا مراد ہے؟کتنی کم ہونی چاہیے۔ تین سال گزرنے تک کتنی کم ہو چکی ہو گی؟ ٭٭٭٭٭ وزیروں مشیروں کی تعداد اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ اب نام سے پتہ نہیں چلتا کہ کون وزیر ہے کون مشیر اور کون کچھ بھی نہیں۔ اس صورتحال میں ’’نمبرنگ‘‘ کا فارمولا بہتر رہے گا۔ اخبارات کو بھی آسانی ہو گی۔یعنی بیانات یوں چھپا کریں کہ وزیر نمبر دو سو اٹھہتر نے یہ کہا ہے اور وزیر نمبر تیس سو ترانوے نے یہ پریس کانفرنس کی ہے۔بہرحال ایک وزیر صاحب نے فرمایا ہے کہ موجودہ صورتحال میں اس سے بہتر بجٹ دینا ممکن نہیں تھا۔ بجا فرمایا سچ فرمایا۔ اس حد تک کہ بجٹ اب تک بہترین بجٹ ہے۔ عوام کی گواہی لی جا سکتی ہے‘ بس کسی محلے چوک چوراہے کا رخ کرنا ہو گا۔ البتہ ممکن نہیں والی بات سے اتفاق ممکن نہیں کہ اس سے بھی بہتر بجٹ مہینے دو مہینے میں آنے والا ہے۔ وہی جسے عرف عام میں منی بجٹ کہا جاتا ہے۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے بھی اس خبر کی تصدیق کر دی ہے۔ فرمایا کہ بجٹ میں ضرورت کے تحت ردوبدل ہو سکتا ہے۔ ردوبدل یعنی ہزاروں ارب روپے کے وہ ٹیکس کھلے عام عائد کر دیے جائیں گے جن میں سے کچھ اب تک کے بہترین بجٹ میں غیر اعلانیہ طور پر لاگو کئے جا چکے ہیں۔ جس ردوبدل کو ممکن ہے کہا ہے دراصل وہ لازمی یعنی ناگزیر ہیں اس لئے کہ محاصل کا جو ہدف طے کیا گیا ہے۔ وہ عوام ہی کو نچوڑ کر حاصل ہو گا۔ اب تک کا یہ بہترین بجٹ اس لحاظ سے بھی بے مثل ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا بجٹ ہے جس میں اشرافیہ کو کسی بھی طرح زحمت دینے کی زحمت نہیں دی گئی۔