یہ 2015ء کا سال ہے، یعنی آج سے پانچ برس پیشتر، بل گیٹس Tedtalkمیں عالمی وباء یعنی Pandemicپر ایک لیکچر دیتا ہے۔ ہال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہے۔ روشنیاں مدھم ہیں، ٹیڈ ٹاک کی مخصوص تالیوں کی گونج ابھرتی ہے اور سٹیج پر روشنی کے ایک دائرے کے حصار میں بل گیٹس، اپنی گفتگو کا آغاز کرتا ہے، میں اس کی گفتگو کو ترجمہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ بل گیٹس کہتا ہے کہ اگلے چند سالوں میں لوگ جنگوں سے نہیں وبائی امراض سے مریں گے۔ پھر وہ وضاحت کرتا ہے کہ میزائل سے نہیں بلکہ ان کے مرنے کی وجہ microbeہوں گے یعنی آنکھ سے نظر نہ آنے والے جرثومے جو بیماری پھیلاتے ہیں اس کی وجہ سے اموات ہوں گی۔ پھرایبولا کا تذکرہ ہے۔ یہ وبائی مرض افریقی ممالک میں 2014ء اور 2015ء میں پھیلا اور ہزاروں اموات ہوئیں۔ بل گیٹس کہتا ہے کہ ایبولا سے زیادہ خطرناک وبائی مرض اگلے چند سالوں میں پھیل سکتا ہے۔ ایبولا اتنی جلدی اور آسانی سے ایک فرد سے دوسرے تک منتقل نہیں ہوتا تھا جبکہ اگلے چند برسوں میں پھیلنے والا وبائی مرض بہت خطرناک ہو گا۔ ایبولا ہوا سے نہیں پھیلتا تھا۔ ایبولا کا شکار فرد بیماری سے اتنا ڈھے جاتا کہ وہ ہسپتال تک محدود ہو جاتا اس طرح ہی اس وبا کا پھیلائو رک جاتا تھا مگر یہ وبائی مرض جو اگلے چند سال میں انسانوں پر حملہ کرنے والا ہے، یہ اس انداز سے خطرناک ہو گا کہ اس کا شکار ہر انسان، بغیر علامتوں کے، صحت مند افراد کی طرح دکھائی دے گا، یوں وہ با آسانی دوسرے افراد تک وائرس پھیلا سکے گا۔ ایبولا ایسے نہیں پھیلتا تھا، بل گیٹس کے ہی الفاظ یہاں کوٹ کرتی ہوں۔ "The next time we might not be so Lucky.You can have a viruse where People feel well enough rather infectious.That Pandemic would be dramtically more devastating" The sources of virus could be a natural epidemic like Ebola or Could be bioterrorism." 2015ء میں بل گیٹس کہتا ہے کہ مستقبل میں پھیلنے والا وائرس اس لیے زیادہ تباہ کن ہو گا کہ لوگ وائرس کا شکار ہونے کے بعد بھی خود کو صحت مند سمجھیں گے۔ یہ وائرس قدرتی وبا بھی ہو سکتا اور اس کا سورس حیاتیاتی دہشت گردی بھی ہو سکتا ہے۔ بل گیٹس کی گفتگو کے دوران پس منظر میں مختلف سلائیڈز چلتی ہیں، جس پر اس کی گفتگو کے متعلقہ تصاویر ابھرتی ہیں۔ مثلاً جب وہ یہ کہتا ہے کہ اب لوگ جنگوں سے نہیں وبائی مرض سے مریں گے تو پس منظر کی سلائیڈ پر وہی شبیہہ ابھرتی ہے جو کورونا وائرس کی ہے۔ اس گفتگو کو سن کر آپ چونک جاتے ہیں کہ پانچ برس پیشتر، بل گیٹس نے کس طرح 2020ء کی عالمی وبا کا نقشہ کھینچا۔ وہ جو کچھ اس گفتگو میں کہتا ہے، سبھی کچھ اس وقت ہماری آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ وہ 2015ء میں یہ کہتا ہے کہ مستقبل میں آنے والے وبائی مرض کی دنیا نے کوئی تیاری نہیںکی ہے۔ یہ مرض اس پراسرار انداز میں اس تیزی سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا کہ دنیا کے بہترین صحت کے نظام اس کے سامنے ہار جائیں گے۔ ہمارے پاس نہ حفاظتی کٹس ہوں گی نہ ویکسین دستیاب ہو گی، نہ ہسپتالوں میں بیڈ ہوں گے، ڈاکٹروں اور نرسوں کی تعداد ہمارے تخمینے سے کم ہو گی۔اس طرح یہ وبا ایک عالمی تباہی میں ڈھل سکتی ہے۔ بل گیٹس کہتا ہے کہ اس وبا سے نمٹنے کے لیے ہمیں 3ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ کی رقم درکار ہو گی۔ غریب ملکوں کی حالت قابل رحم ہو جائے گی۔ ان کی معیشت تباہ ہو سکتی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہم نے چند برسوں میں آنے والی اس وبا کی کوئی تیاری نہیں کی۔ بل گیٹس کی اس Tedtalkکو پانچ برس بیت گئے ہیں۔ آج 13مئی 2020ہے۔ میں حیرت زدہ ہوں کہ جو کچھ اس لیکچر میں کہا گیا وہ آج حرف بہ حرف درست کیسے ہے؟ اس گفتگو کو سن کر ایسا لگتا ہے جیسے کسی فلم کا ڈائریکٹر، اپنی آنے والی بلاک بسٹر فلم کا سکرپٹ لوگوں کو سنا رہا ہو۔ اسے پہلے سے یقین کہ یہ مووی کھڑکی توڑ رش لے گی۔ بل گیٹس کا امیج دنیا بھر میں انسانیت کے لیے کام کرنے والے ایک ایسے شخص کا ہے جو دنیا بھر کے بچوں کی صحت کے لیے فکر مند ہے۔ بل اینڈ مینڈا گیٹس فائونڈیشن کا امیج بھی یہی ہے اس فائونڈیشن کے پلیٹ فارم سے بل گیٹس دنیا بھر میں فلاحی منصوبوں پر ملین ڈالرز لگاتا ہے لیکن یہ صرف ایک امیج ہے۔ تصویر کا ایک رخ ہے۔ دنیا میں طاقت اور دولت کی فلاسفی اتنی بے رحم ہے کہ غربت زدہ، بے بس، عام افراد کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ انسانیت اور فلاحی منصوبوں کی آڑ میں، ان کے ساتھ کس نے کیا ہاتھ کر دیا۔ لفظ بھی اپنی نئی معنویت پر حیران ہوتے ہوں گے جب بل گیٹس کے ’’فلاحی منصوبوں‘‘ کو حقیقت جاننے والے Humantarian imperialismکا نام دیتے ہیں۔ بل گیٹس نے مائیکرو سافٹ چھوڑنے کے بعد دنیا کی نو بڑی فارماسوئیکل کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کی فارماسوئیکل انڈسٹری نئی ویکسین کے تجربات چوہوں کی بجائے، افریقہ کے غربت زدہ بھوکے بچوں پر کرتی ہے۔ ایک طرف بل گیٹس اینڈ مینڈا فائونڈیشن کے زیر اہتمام ان بچوں کی فلاح کے منصوبے جاری ہوتے ہیں اور دوسری طرف انہیں تجربات کی بھٹی میں جھونکا جاتا ہے۔ اس بار مگر بل گیٹس نے پوری دنیا کو تختۂ مشق بنا ڈالا۔ کورونا کا کھیل اس کے سکرپٹ کے عین مطابق جاری ہے۔ وہی سکرپٹ جو اس نے 2015ء میں Tedtalkمیں پڑھ کر سنایا تھا۔