سکھ علیحدگی پسند تحریک جو 80ء کی دہائی کے اوائل میں بہت پرجوش اندازمیں شروع ہوئی اور اگلے دس پندرہ برسوں میں کچل دی گئی لیکن بھارت میں غیر ہندووں کے ساتھ بہیمانہ اور امتیازی سلوک نے سکھوں کو ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ان کا ہندووں کے ساتھ کسی صورت گزارا ممکن نہیں ہے۔ جس کے بعد یہ تحریک اب ایک بارپھر اٹھ کھڑی ہوئی ہے لیکن ایک نئے انداز اور نئے جوش وخروش کے ساتھ اور منزل آزاد مملکت خالصتان ہی ہے۔ آپریشن بلیو سٹار تین سے آٹھ جون 1984ء کو امرتسر میں سکھوں کے مقدس مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ میں ہوا۔ آپریشن میں بھارتی فوج کے 10 ہزار فوجیوں، سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے 700 اہلکاروں، بارڈرسیکورٹی فورس کے ڈیڑھ سو اہلکاروں سمیت پنجاب پولیس کی بڑے پیمانے پر نفری نے حصہ لیا جبکہ فضائیہ نے بھی مدد کی۔ آپریشن کے نتیجے میں ہزاروںسکھ ہلاک ہوئے۔ان میں خالصتان تحریک کے قائد سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ بھی تھے۔بھارتی فوج اور دیگرسیکورٹی فورسز نے اس اندھا دھند آپریشن میں ہر سکھ کو علیحدگی پسند سمجھا یوں انھوں نے 5000عام شہریوں کو بھی گولیوں سے بھون ڈالا۔ سکھ قوم برسوں سے جون کے پہلے ہفتے میں اپنے شہدا کو خراج تحسین پیش کرتی ہے تاہم اس بار مودی سرکار نے اعلان کیا کہ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کا نام کسی کی زبان پر نہ ہو چنانچہ ہرایسی تقریب کو الٹ دینے کا حکم دیاگیا۔ آپریشن بلیوسٹار کے اثرات سکھوں پر ابھی تک ویسے ہی تازہ ہیں وہ نہ اسے بھول سکتے ہیں نہ بھولنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیونکہ کوئی قوم اپنے ساتھ اس قدر بڑی زیادتی اور ظلم کو بھلانہیں سکتی بالخصوص سکھ قوم ایسا کرہی نہیں سکتی۔ ایسی قوم کے انتقامی جذبات ہی کسی بڑی تحریک کی بنیاد بن جاتے ہیں۔ شدت پسندی کے خلاف برطانوی حکومت کی کمیشن کی رپورٹ میں واضح طور پرکہا گیا ہے کہ بھارت کے اندر خالصتان تحریک کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ نہیں ہے۔ بھارت نے خالصتان تحریک کو دہشت گرد قرار دیا جس پر سکھ ناراض ہوئے۔ سکھ بھارتی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔برطانیہ میں مقیم ہندوؤں اور سکھوں کے درمیان بھی تناؤ موجود ہے۔ اوورسیز سکھ کمیونٹی اپنی شناخت سے متعلق زیادہ حساس ہیں۔ وہ خالصتان تحریک کے حوالے سے سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ گولڈن ٹیمپل حملے کے بعد سے خالصتان کے مطالبے میں شدت آئی ہے۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کا رویہ بھی سکھ علیحدگی پسندی کو ہوا دے رہا ہے۔سکھوں کی اکثریت اب الگ ملک کا قیام چاہتی ہے۔ بھارت میں کالعدم قرار دی گئی سکھوں کی تنظیم "سکھ فار جسٹس"نے2020 ء شروع ہوتے ہی ریفرنڈم کی سرگرمیاں تیز کر دیں مگر کورونا وائرس کی وجہ سے حالات اس قابل نہیں کہ ایسا ریفرنڈم کرایا جائے تاہم سکھوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ حالات درست ہوتے ہی ریفرنڈم کرایا جائیگا اور اس میں دنیا بھر سے کم از کم پچاس لاکھ سکھ حصہ لیں گے جب کہ اس وقت ان کے پاس رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 30لاکھ سے زائد ہے۔ ریفرنڈم کا نتیجہ اقوام متحدہ میں پیش کیا جائے گا۔اس ریفرنڈم کے تحت پنجاب کی سکھ قوم سے پوچھا جائے کہ ’’ وہ آزادمملکت خالصتان کے حق میں ہے یا بھارت کے ساتھ ہی زندگی بسر کرناچاہتی ہے’’؟سکھ قوم سمجھتی ہے کہ وہ یہاں کے پرانے باسی ہیں۔ یہ ان کا تاریخی وطن ہے۔ ان کا ایک الگ مذہب ہے اس لئے وہ ایک الگ مملکت میں رہنے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی اورکینیڈا میں مقیم سکھ غیرمعمولی طورپر ’ریفرنڈم 2020ء ‘ کی تحریک میں سرگرم کردار اداکررہے ہیں، وہ بڑے مظاہرے اور دیگرپروگرام منعقد کررہے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ اندراگاندھی نے اپنے دور میں آپریشن بلیوسٹار کے تحت سکھوں کے انتہائی مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کی اس میں 10ہزارسکھ زائرین کو ہلاک کردیاگیاتھا جبکہ31اکتوبر 1984ء کو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اس وقت کی حکمران جماعت ’انڈین نیشنل کانگریس‘ نے سکھوں کی نسل کشی کی منظم مہم شروع کی گئی۔ اس مہم میں سکھوں کو جانی نقصان کا سامنا بھی ہوا، ان کے گھر بار تباہ وبرباد کردئیے گئے، ان کی جائیدادوں پر قبضے کئے گئے ، ان کی عبادت گاہوں پر حملے کئے گئے۔ہزاروں سکھ قتل کردئیے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق اس مہم میں 30ہزار سے زائد سکھ قتل کئے گئے۔ان میں سے زیادہ تر بے بس تھے جن کو اپنے گھر والوں یا محلے والوں کے سامنے زندہ جلادیاگیا۔ 80ء اور90ء کے عشروں میں بھارتی حکومت کے ظلم و ستم سے تنگ آکر 90 فیصد سکھوں نے دنیا کے مختلف ممالک کا رخ کیاتھا، بعدازاں انھوں نے اپنے گھرانے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلا لیا۔ وہ سکھ نوجوان بھی یہاں آگئے جنھیں بھارت میں بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جارہا تھا۔ چنانچہ وہ اپنی زمینیں اور جائیدادیں فروخت کرکے بیرون ملک مقیم ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ اب بیرون ملک مقیم یہ سکھ پورے جوش وخروش سے ’ریفرنڈم2020ء کے لئے تحریک چلارہے ہیں۔ اس وقت سکھ قوم بڑے پیمانے پرسیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنے لئے حق خودارادیت کا مطالبہ کررہی ہے۔ ایک طفل مکتب بھی سمجھ سکتاہے کہ اگر ریفرنڈم کا مطالبہ نہ مانا گیاتوپھر آزادی پسند سکھ نوجوان بے چین اور مضطرب ہوں گے۔ ان کا اضطراب ایک بڑی معاشی طاقت بھارت کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہوگا۔اس کا اندازہ سکھ نوجوانوں کی ایک تنظیم کی طرف سے بھارتی فضائی کمپنی ’ایئرانڈیا‘ کے بائیکاٹ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔