مکرمی !گھر کے بعد بچوں کا سب سے زیادہ وقت اسکول میں گزرتا ہے ۔ سکول میں ہونے والے تجربات کا بچوں کی ذھنی اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ جدید دنیا نئے آنے والے بچوں کی کردار سازی پہ سب سے پہلے کام کرتی ہے۔ جرمنی کی اسکولوں میں شروع کے 2 سال بنیادی تعلیم کے سوا صرف بچوں کی کردار سازی کی جاتی ہے تاکہ بچوں کو سب سے پہلے ایک اچھا انسان بنایا جاسکے۔ہمارے ہاں اس کے الٹ ہے ہمارے اسکولوں میں 4 سال کے بچے کو اتنی کتابیں دی جاتی ہیں ان کے وزن کی وجہ سے بچوں کے قد بڑھنے کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ بچوں کو شروعاتی الفابیٹ پڑھانے کے ساتھ ان کی مکمل کردار سازی کی جائے اس کے ساتھ استادوں کی کردار سازی پر بھی کام کرنا چاہیے کیونکہ ایک اچھا استاد ہی ایک اچھا شاگرد بنا سکتا ہے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے بچوں کو خراب ناموں سے نہ پکاریں معذرت کے ساتھ ہمارے استاد اسکول میں بچوں کو نالائق ، کام چور ، بہرے ، کانے جیسے ناموں سے پکارتے ہیں جس سے بچوں کی خود اعتمادی میں کمی آتی ہے اور وہ نفسیاتی مسئلوں جیسے پڑھائی میں کمزور اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق انسان میں ذھنی بیماریوں ڈپریشن ، انزائٹی اور ذھنی دباؤ جیسے مسئلوں کی شروعات 14 سال کی عمر میں ہوتی ہے۔اس کے لیے اساتذہ کی کائونسلنگ کی جائے۔ (شاہنواز مراد ، کراچی)