معزز قارئین!۔ جب بھی ہم ’’یوم پاکستان ‘‘ ( 23 مارچ کو ) ’’یوم آزادی ‘‘ ( 14 اگست کو ) قائداعظمؒ ، علاّمہ اقبالؒ اور دوسرے مشاہیر کی سالگرہ یا برسی مناتے ہیں تو، مجھے تو، قیام پاکستان کی جدوجہد میں ، ہمارے آبائو اجداد کی جانی اور مالی قربانیوں کی یاد آتی ہے اور بقول شاعر … آئی جو، اُن کی یاد تو، آتی چلی گئی 5 اگست ،2019ء سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حکم سے بھارتی فوج اور درندہ صِفت ہندوئوں کی دہشت گرد تنظیم ’’ راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ ‘‘ (R.S.S) اور اُس کی پروردہ جماعت ’’بھارتیہ جنتا پارٹی ‘‘ کے غنڈوں کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں مسلمان، مردوں ، عورتوں اور بچوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور جب الیکٹرانک میڈیا پر وہ مناظر دکھائے جاتے ہیں تو ، مجھے تحریکِ پاکستان کے دَوران مشرقی ( اب بھارتی ) پنجاب میں دہشت گرد سِکھوں کے ہاتھوں دس لاکھ مسلمانوں کی شہادتوں اور 55 ہزار مسلمان عورتوں کی عصمت دری کے واقعات یاد آ جاتے ہیں ۔ ’’سِکھ ریاست پٹیالہ ؔ‘‘ 14 اگست 1947ء کو مَیں ’’سِکھ ریاست نابھہ‘‘ کے ایک پرائمری سکول میں چوتھی جماعت کا طالبعلم تھا ۔ میری عمر 11 سال تھی ، میرے والد صاحب ’’ تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ ) کارکن ‘‘ رانا فضل محمد چوہان ’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے نیشنل گارڈز ‘‘کودہشت گردسِکھوںسے لڑنے کے لئے ’’ لٹھ بازی ‘‘سِکھایا کرتے تھے ۔ تحریک پاکستان کے دَوران نابھہؔ ، دوسری سِکھ ریاست پٹیالہؔ اور ضلع امرتسرؔ میں میرے خاندان کے 26 افراد ( زیادہ تر ) سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوگئے لیکن، مسلمانوں کا قتل عام ، مہاراجا پٹیالہ ؔ ، یادوِندر سنگھ کے حکم سے ہُوا تھا ۔ پٹیالہ کے آنجہانی مہاراجا یادوِندر سنگھ ( موجودہ ) وزیراعلیٰ بھارتی پنجاب کیپٹن ( ر) امریندر سنگھ کے پِتا ( والد ) تھے، جس کی نگرانی میں سِکھ فوج اور اور سِکھ جتھوں نے شہر پٹیالہؔ اور ریاست پٹیالہؔ کے کئی قصبوں اور دیہات میں اڑھائی لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام کِیا تھا ۔ معزز قارئین!۔ ’’مہاراجا یادوِندر سنگھ کے دَور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے کئی قائدین اور کارکنان بھی بہت سرگرم تھے، جنہیں قیام پاکستان کے بعد 1987ء سے 2019ء تک ’’تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ نے پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کے ساڑھے تیرہ سو سے زیادہ تحریک ِ پاکستان کے نامور کارکنوں کو "Gold Medals" سے نوازا ہے۔ 1947ء کے مسلم کُش فسادات میں ، ریاست پٹیالہؔ میں ’’ آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ کے جن عہدیداروں اور کارکنوں کو (گولڈ میڈلز ) سے نوازا گیا ، اُن میں جسٹس سیّد جمیل حسین رضوی ، قریشی روشن ضمیر، سیّد رضا محمد شہیدؔ ، جناب ثناء اللہ شیدا، جناب قاضی ظہور اُلدّین اور محترمہ نیامت بی بی شامل ہیں۔ اِن نامور شخصیات کے دبائو میں آ کر مہاراجا یادوِندر سنگھ نے بے شمار مسلمان مردوں ، عورتوں اور بچوں کو ’’ قلعہ بہادر گڑھ‘‘ میں نظر بند کردِیا تھا۔ (بعد میں جب ، کچھ لوگ رہا کئے گئے تو ، اُنہوں نے بتایا کہ ) ’’ قلعہ بہادر گڑھ میں بہت سے لوگ بھوک اور پیاس سے مر گئے تھے اور اُنہیں اجتماعی قبروں میں دفن کردِیا گیا تھا یا جنگلی جانوروں کے آگے ڈال دِیا جاتا تھا‘‘ اور یہ کہ ’’ قیدیوں کو کھانے کے لئے گلی ، سڑی دال دِی جاتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے سینئر ایڈووکیٹ سیّد ضیاء حیدر رضوی کے والد جسٹس (ر) سیّد جمیل حسین رضوی ، نامور صحافی روزنامہ ’’ جُرأت‘‘ کے چیف ایڈیٹر جمیل اطہر قاضی کے چچا قاضی ظہور اُلدّین ، قریشی روشن ضمیر ، جناب ثناء اللہ شیدا اور محترمہ نیامت بی بی نے پاکستان میں مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کِیا۔ معزز قارئین !۔ مَیں نے 1960ء میں سرگودھا سے مسلک ِ صحافت اختیار کِیا۔ اِس سے پہلے 1958ء سے 1960ء تک سیّد جمیل حسین رضوی مغربی پاکستان کے ایڈووکیٹ جنرل تھے ۔ سرگودھا کے دورے پر تشریف لائے تو، میرے والد صاحب مجھے سیّد صاحب سے ملوانے کے لئے ہفت روزہ ’’ رفیق‘‘ سرگودھا کے چیف ایڈیٹر ، سیّد حسنین اختر جعفری اور ہفت روزہ ’’ المفید ‘‘ سرگودھا کے چیف ایڈیٹر سیّد بشیر حسین بخاری کے دفاتر ( رہائش گاہوں) پر لے گئے۔ سیّد جمیل حسین رضوی کے صاحبزادے سیّد ضیاء حیدر رضوی سے میرا تعارف 1966ء سے میرے لاہوری دوست ریٹائر ڈ بینکر اور جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رُکن سیّد یوسف جعفری نے کروایا تھا ، پھر مجھے سیّد جمیل حسین رضوی اور سیّد ضیاء حیدر رضوی کی قومی خدمات سے زیادہ معلومات ہونے لگیں۔ سیّد جمیل حسین رضوی کے نواسے سیّد حسن عسکری رضوی کو بھی 8 جون 2018ء سے 20 اگست 2018ء تک نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے اہل پنجاب کی خدمت کرنے کا موقع ملا ہے ۔ سیّد جمیل حسین رضوی 1951ء میں منڈی بہائوا ُلدّین ضلع گجرات سے پنجاب اسمبلی کے رُکن منتخب ہُوئے اور 1955ء میں ون یونٹ کے قیام کے بعد مغربی پاکستان اسمبلی کے رُکن منتخب ہُوئے۔ 1960ء میں آپ کو مغربی پاکستان ہائی کوٹ کا جج مقرر کِیا گیا اور آپ اُس عہدے سے 1965ء میں ریٹائر ہُوئے۔ معزز قارئین!۔ 1973ء میں سیّد جمیل حسین رضوی نے "Pakistan Story" کے عنوان سے انگریزی زبان میں ایک کتاب لکھی ، جو اُن کے بیٹے سیّد ضیاء حیدر رضوی نے شائع کی تھی۔ مَیں نے یہ کتاب قسطوں میں پڑھی ہے ۔ مجھے تو، یہ تحریکِ پاکستان کا یہ المناک باب نظر آیا ، جسے پٹیالہ میں شہید ہونے والے اڑھائی لاکھ کے قریب مسلمانوں نے اپنے خون سے روشن کردِیا۔’’ پاکستان سٹوری‘‘ نہ صِرف ریاست پٹیالہؔ بلکہ مشرقی پنجاب کے مسلمان غازیوں اور شہیدوں کی داستان ہے جسے سیّد جمیل حسین رضوی نے اپنے خونِ جگر سے اِسے اور بھی زیادہ تابدار کردِیا ہے۔ جنابِ رضوی نے کتاب میں ( 1947ء ) کے پٹیالہ ؔ کی اہم شخصیات ، وکلاء ، افسران ، ڈاکٹروں اور دانشوروں کے بیانات / انٹرویوز بھی شائع کئے۔ مَیں چونکہ 1947ء میں سِکھوں کا زخم خوردہ ہُوں ، مجھے تو ، اِن معزز شخصیات کے بیانات اور انٹرویوز میں اپنی اور اپنے خاندان کی داستان نظر آئی۔ دسمبر 2004ء میں بھی کیپٹن (ر) امریندر سنگھ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے اور (اُن دِنوں ) پاک پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی تھے ۔ موصوف دو اڑھائی سو ادیبوں ، شاعروں ، دانشوروں اور صحافیوں کو ’’ عالمی پنجابی کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لئے پٹیالہ لے گئے تھے ۔ 2 دسمبر 2004ء کو پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کے سائنس آڈیٹوریم میں بھارتی صحافی / دانشور ( آنجہانی ) کلدیپ نائر صاحب کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں بھارتی سِکھ شاعروں، ادیبوں ، دانشوروں اور صحافیوں نے ’’ سانجھا پنجاب‘‘ کی بات کی اور اُن کی حمایت میں پاک پنجاب کے شاعروں، ادیبوںاور دانشوروں نے بھی تو، مَیں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’پاک پنجاب تے بھارتی پنجاب دِی سرحدی لکیر وِچ میرے بزرگاں دا لہو شامل اے ۔ (پھر مَیں نے اپنے مُنہ پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ )۔مَیں تے ایس لکیر نُوں کدی نئیں مِٹن دیاں گا‘‘۔ پھر مَیں نے سٹیڈیم میں اپنے لئے ناپسندیدہ چہرے دیکھے! ۔ سیّد جمیل حسین رضوی بیک وقت اہل سنت اور اہلِ تشیع کے قائد تھے یعنی۔’’ اتحاد بین اُلمسلمین ‘‘ کے علمبردار ۔ 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے اور ’’ شیعہ مطالبات کمیٹی ‘‘ کی طرف سے شیعہ قوم کے مطالبات منظور کرنے کے لئے لیت و لعل کی پالیسی اختیار کئے ہُوئے تھے جب ، راولپنڈی میں سیّد جمیل حسین رضوی کی قیادت میں ، وزیراعظم ہائوس کے قریب شیعہ قوم کے بہت بڑے اجتماع نے تین دِن تک دھرنا دِیا۔ بھٹو صاحب مان گئے ۔ سیّد جمیل حسین رضوی 1971ء سے عارضۂ قلب میں مبتلا تھے لیکن، قومی خدمات انجام دیتے رہے۔ 24 اگست 1981ء کو موصوف خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔ پرسوں نہ صِرف سیّد ضیاء حیدر رضوی ، سیّد حسن عسکری اور اُن کے خاندان کے افراد نے بلکہ پاکستان بھر میں جسٹس سیّد جمیل حسین رضوی کی برسی پر اُن کی مغفرت کا اہتمام کِیا ۔ مجھے نہیں معلوم ؟ کہ ’’ مہاراجا پٹیالہ یادوِندر سنگھ کی رُوح کہاں بھٹک رہی ہوگی؟ اور کیپٹن (ر) امریندر سنگھ کو ’’ نیا پاکستان ‘‘ میں سِکھوں کی آئو بھگت کی پالیسی سے واقعی خوشی ہوئی ہوگی ؟۔