وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں ہونیوالے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سکھ یاتریوں کیلئے پاسپورٹ کی شرط ختم کرنے کی منظوری دی گئی اور بابا گرو نانک جنم دن کی تقریبات میں آنے والے سکھوں کیلئے دو دن کی فیس معافی کا بھی فیصلہ ہوا۔ دوسری طرف بابا گرو نانک کی 550 ویں جنم دن کی تقریبات میں شرکت کیلئے اڑھائی ہزار سکھ یاتری سردار سروجیت سنگھ کی قیادت میں واہگہ کے راستے پاکستان پہنچے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا ۔ اس بارے گزارش یہ ہے کہ پہلا لفظ ہی قابل اعتراض ہے کہ پاسپورٹ کی شرط کے خاتمے کا فیصلہ صرف سکھ یاتریوں کیلئے کیوں؟ مسلمان زائرین کیلئے کیوں نہیں ؟ ریاست مدینہ کے دعویداروں کو اس اہم اور حساس مسئلے پر غور کرنا چاہئے ۔ دوسرا یہ کہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت سے سخت ترین تنازعہ بھی چل رہا ہے ۔ اور دوسری طرف کشمیر کے راجہ گلاب سنگھ کے ان تعلق دار بھارتیوں کو پاسپورٹ اور ویزے کی شرط سے مستثنیٰ قرار دیا جا رہا ہے جس کے غلط فیصلے کے باعث مقبوضہ کشمیر کے مسلمان آج تک عذاب بھگت رہے ہیں ۔ حکومت اپنے یکطرفہ فیصلے پر نظر ثانی کرے ، اگر سہولت دینی ہے تو بھارت میں مقیم مسلمانوں کا حق پہلے ہے کہ ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ اگر سکھوں کو مذہبی بنیاد پر سہولت ملتی ہے اور بھارت میں مقیم کروڑوں مسلمان اس سہولت سے محروم رہتے ہیں تو ان کے جذبات مجروح ہونگے ۔ مزید یہ کہ مذہبی بنیادوں پر سکھوں کو سہولت دی جا رہی ہے تو پھر ہندو اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی سہولت دینی چاہئے کہ ملتان پرہلاد مندر ‘ سورج کند مندر اور دوسری عبادت گاہیں ۔ اسی طرح ہندو کے لئے مقدس ہیں جس طرح سکھوں کیلئے ننکانہ صاحب ۔ اگر یکطرفہ فیصلہ برقرار رکھا گیا تو سندھ ، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کو بھی اس بات پر اعتراض ہوگا کہ مرکز سے جو سہولتیں پنجاب حاصل کرتا ہے ، انہی سہولتوں سے دوسرے صوبوں کو محروم رکھا جاتا ہے ۔ آنے جانے کی کھلی اجازت بھی حساس مسئلہ ہے کہ ’’ را کے ایجنٹوں ‘‘ کو خطرناک سہولت حاصل ہونے کا خدشہ ہے۔ ایک بار پھر کہوں گا کہ کرتارپور راہداری پر ویزا فری رسائی پر اصولی طور پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے مگر یہ سہولت صرف مشرقی پنجاب کے سکھوں کیلئے نہیں ہونی چاہئے ، دونوں ملکوں کی مسلم آبادی کو بھی اس سے استفادہ کی سہولت حاصل ہونی چاہئے ۔ پاکستان میں ریاست مدینہ کی بات کرنے والی جماعت پر اور بھی لازم ہے کہ وہ اس معاملے پر غور کرے ۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ تقسیم ہند کے بعد دونوں ملکوں کے مسلمان بغیر ویزے کے سفر کرتے تھے مگر جونہی حالات خراب ہوئے تو ویزے پر خونی رشتے کی پابندی لگا دی گئی۔ ہم اپنے ملتان کو دیکھتے ہیں تو روہتک، حصار اور ہریانہ سے کثیر تعداد میں مسلمان آئے ہوئے ہیں ۔ ان کے بہت سے رشتے دار ہندوستان میں رہ گئے ‘ وہ تعزیت کیلئے بھی نہیں جا سکتے، کسی اپنے بیمار رشتہ دار کی تیمارداری کرنے بھی نہیں جا سکتے ۔ وہاں جا کر اپنے آباؤ اجداد کے شہر ، محلے ، بستیاں ، گھر اور صحن دیکھنا ان کی زندگی کی حسرت ہے ، دو تین نسلیں یہ حسرت لے کر اگلے جہاں چلی گئیں مگر وہ وہاں نہیں جا سکے ۔ عجب بات ہے کہ آج آدمی گھنٹوں میں سات سمندر پار پہنچ سکتا ہے لیکن ملحقہ بارڈر کے دوسری طرف نہیں جا سکتا۔ ویزا آفسز لاہور ، اسلام آباد میں ہیں ، یہ سہولت ملتان میں ہونی چاہئے کہ ملتان پاکستان کا مرکزی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ عین وسط میں ہے اور اس سے سب برابر فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کو دوسری مرتبہ وزارت خارجہ کا قلمدان ملا ہے ، ان کو اس مسئلے پر غور کرنا چاہئے ۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے اتنی گزارش ہے کہ وہ دوسری راہداریوں کے بارے میں بھی اسی طرح کے جذبے کا مظاہرہ کریں ۔ جیسا کہ ملتان دہلی قدیم راہداری ہے اور یہ راستہ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ اور حضرت نظام الدین اولیاء کے زائرین کا راستہ ہے۔ اگر ملتان دہلی بس سروس شروع کر دی جائے تو اس کا فائدہ دونوں ملکوں کی مسلم آبادی کو ہوگا اور یہ پاکستان کے حق میں نہایت ہی بہتر ہے۔ امروکا بٹھنڈہ بارڈر بھی کھلنا چاہئے کہ یہ راستہ حضرت خواجہ نور محمد مہاروی ؒ اور حضرت معین الدین ؒچشتی اجمیری کا راستہ ہے ، اس کا بھی مسلم آبادی کو فائدہ ہے ، میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ قیام پاکستان سے پہلے سمہ سٹہ تا دہلی براستہ امروکہ بٹھنڈہ بہت بڑا ریلوے روٹ تھا اور یہاں سے چلنے والی پسنجر و گڈز ٹرینوں کی تعداد دوسرے روٹوں سے کہیں زیادہ تھی اور بہاولنگر اس روٹ کا بہت بڑا اسٹیشن اور تجارت کا بہت بڑا مرکز تھا ۔ بہاولنگر کا ریلوے اسٹیشن اتنا وسیع اور خوبصورت تھا کہ سیاح محض اسے دیکھنے کیلئے آتے تھے ۔ مگر قیام پاکستان کے بعد امروکہ بٹھنڈہ روٹ بند ہونے سے سب کچھ اجڑ گیا۔ آج اگر اس سٹیشن کی زبوں حالی اور بربادی کا نظارہ کیا جاتا ہے تو سنگدل سے سنگدل آدمی کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جاتے ہیں ۔ دوسری جانب اپر پنجاب میں بہاولنگر سے کم حیثیت کے شہروں کو بہت زیادہ ترقی دے دی گئی ۔عجب بات ہے کہ لاہور میں بابا گرونانک یونیورسٹی بنائی جا رہی ہے مگر بابا گرو نانک کے مرشد حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے نام پر پاکپتن میں یونیورسٹی نہیں بن سکتی ۔ یہ میاں نواز شریف حکومت کے اقدامات تھے ، کیا موجودہ حکومت ان اہم امور پر غور کرے گی ؟ واہگہ بارڈر کا سب سے بڑا فائدہ سکھوں کو ہوا ۔ جبکہ مسلم آبادی کو سہولتیں دینے کے لئے اقدامات نہ ہوئے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو ہندو پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے وہاں گئے ان کو بھی سہولتیں حاصل نہ ہو سکیں ۔ میں بحیثیت کمیونٹی بات نہیں کرنا چاہتا کہ سکھوں میں بھی اچھے لوگ ہونگے ، مگر 19ویں صدی کے آغاز میں رنجیت سنگھ اور دوسرے سکھوں نے لاہور اور ملتان کی مسلم آبادی پر جو مظالم ڈھائے وہ انسانی تاریخ کی المناک داستان ہے ۔ اسی طرح تقسیم کے وقت 1947ء میں مسلم پنجابیوں کو جس طرح سکھوں نے گاجر مولی کی طرح کاٹا اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق 25 ہزار اور غیر سرکاری ریکارڈ کے مطابق قریباً 80 ہزار مسلم دوشیزاؤں کو سکھوں نے اپنے پاس رکھ کر جس بربریت کا مظاہرہ کیا اسے کسی طرح بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ایک اندازے کے مطابق تقسیم کے وقت 10 لاکھ لوگ مارے گئے ، جن میں پانچ فیصد غیر مسلم ، 95 فیصد مسلمان (90 فیصد پنجابی مسلمان )تھے ۔ کیا اب ان کو تیسری مرتبہ قربانی کیلئے تیار کیا جا رہا ہے؟