سکھوں کی دیرینہ خواہش کا احترام کرتے ہوئے 9 نومبرکو وزیر اعظم عمران خان نے سکھ مذہب کے مقدس مقام کرتار پور میں دربار صاحب کے نام سے راہداری سکھوں کیلئے کھول دی۔ اب سکھ برادری سارا سال اپنے مذہبی فرائض بخوبی انجام دے سکے گی۔ یہ سکھوں کی گزشتہ 72 سالوں سے دلی خواہش تھی کہ انہیں کرتار پور دربار صاحب کی آزادانہ یاترا کی اجازت دی جائے۔ یوںہندوستان اور دنیا بھر میں بسنے والے 14 کروڑ سکھوں کا دیرینہ خواب پورا ہوگیا۔ کرتار پور راہداری کھلنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ راقم الحروف کو فروری 1976 ء میں سرہند شریف جانے کا موقع ملا ۔ وہاں قیام کے دو ران محسوس ہوا کہ سکھ برادری پاکستان میں اپنے مقامات مقدسہ کی زیارت کی خواہش رکھتی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد مشرقی پنجاب میں سکھوں نے اپنی آزادی کی خاطر علیحدہ وطن خالصتان کے قیام کی تحریک شروع کی جسے ہندوستانی حکومت نے طاقت کے بل پر کچل دیا بلکہ بھارتی پنجاب کو تین صوبوں ہریانہ، ہماچل پردیش اور مشرقی پنجاب میں تقسیم کر دیا۔ دورہ بھارت کے دوران راقم الحروف معروف اور نامور سکھ لیڈروں سے ملاقاتوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ سکھ بر ادری برسوں سے اپنی آزادی کے لئے کوشاں ہے اور سکھ اپنے علیحدہ وطن خالصتان کیلئے تڑپ رہے ہیں۔ راقم الحروف نے اپنے دورے کے بعد ایک بڑی جامع رپورٹ اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو پیش کی۔ جس میں ایک تجویز یہ بھی تھی کہ سکھوں کو پاکستان میں واقع اپنے مذہبی مقامات تک آنے کی اجازت دی جائے اور ننکانہ صاحب ، دربار صاحب، حسن ابدال اور ایمن آباد یاترا کی کھلی اجازت ہو ۔ سکھوں کو کم از کم 5000 کے جتھے کی صورت میں ویزا دیا جائے۔ ان کے پاکستان میں قیام کے دوران صدر پاکستان یا وزیر اعظم پاکستان سکھوں کی ممتاز شخصیات مرد و خواتین کے اعزاز میں استقبالیہ دیں اور اس موقع پر انہیں تحائف بھی پیش کیے جائیں۔ راقم الحروف کی طرف سے دی گئی رپورٹ میں دوسری تجویز یہ تھی کہ ننکانہ صاحب میں گرونانک یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایاجائے تاکہ ہندوستان اور دنیا بھر سے سکھ لڑکے لڑکیاں تعلیم حاصل کر سکیں۔ اس سے پاکستان کو زر مبادلہ بھی ملے گا اور سکھوں کے ساتھ خیر سگالی کے تعلقات بھی بڑھیں گے۔ اس رپورٹ میں ایک تجویز یہ بھی تھی کہ ننکانہ صاحب، دربار صاحب، حسن ابدال اور ایمن آباد میں سکھوں کے مقدس مقامات کی تزئین و آرائش کی جائے اور سکھوں کو جتھے کی صورت میں ان مقامات کی یاترا کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے یہ تفصیلی رپورٹ دیکھی اور انہوں نے ان تجاویز سے اتفاق کیا۔ بلکہ انہوںنے متروکہ وقف املاک، وزارت مذہبی امور، وزارت داخلہ اور وزارت اطلاعات و نشریات کو فوری طور ان تجاویز پر عمل درآمد کیلئے ہدایات جاری کر دیں۔ سکھ برادری صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی ایک بڑی اقلیت کے طورپر بستے ہیں لہذا ان کے مقدس مقامات اور یاتر ا کی خواہش بارے ایک جامع رپورٹ دیکھنے اور مکمل جائزہ لینے کے بعد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے راقم الحر وف کونہ صرف ایک ہفتے کے اندر اندر اپنے لیٹر فارم پر مہر شدہ رجسٹرڈ خط بھیجا بلکہ انہوںنے متعلقہ محکموں کو راقم الحروف سے تعاون کرنے اور تجاویز پر عمل درآمد کرنے کی بھی ہدایت کی۔ جولائی 1977 ء میں تحریک نظام مصطفی اور حکومت کے درمیان سمجھوتہ نہ ہونے کی صورت میں اس وقت کے چیف آف سٹاف جنرل ضیاء الحق مرحوم نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ راقم الحروف نے انہیں بھی اپنے رپورٹ ارسال کی تو انہوں نے فوری اقدامات کا حکم دیا۔ اس وقت پہلی بار 500 سکھوں کا جتھہ آنے والا تھا۔ میں نے جنرل ضیاء الحق سے چودھری ظہور الہیٰ مرحوم سے سکھوں کے اعزاز میں استقبالیہ دینے کی درخواست کی۔ صدر صاحب نے میری اس تجویز کو منظور کیا اور انہوںنے باقی تجاویز کو بھی پسند کیا۔ اس سلسلے میں راقم الحروف کے پاس چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کا سیلڈ اور رجسٹرڈ خط بھی موجود ہے۔ جب سکھوں کا جتھہ آیا تو ضیاء الحق صاحب نے سکھوں کی ممتاز شخصیات کو اپنے ہاں استقبالیہ دیا۔ اور تب سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ سکھوں کو پاکستانی حکومت کے سربراہ استقبالیہ دیتے ہیں۔ سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اس مرتبہ بھی گورنر ہاؤس لاہور میں صدر پاکستان عارف علوی صاحب اور گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی جانب سے کرتار پور کوریڈور اور بابا گورونانک کی 550 ویں سالگرہ کے موقع پر آئے سکھ یاتریوں کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا ۔ یہاں سکھ مہمانوں کیلئے ظہرانے کا اہتمام تھا۔ اس موقع پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ کرتارپور راہداری حکومت پاکستان کی طرف سے سکھ یاتریوں کیلئے بہت بڑا تحفہ ہے۔ دنیا میں امن دوستیوں سے بڑھے گا۔ سکھ مذہب امن و دوستی کا مذہب ہے۔ راہداری کھولنے کی وجہ سے سکھ یاتریوں کے چہروں پر خوشی دیکھ کر بہت مسرت محسوس کرتے ہیں۔مہمان یاتریوں کا گورنر ہاؤس میں پرتپاک اور والہانہ استقبال ہوا۔ ڈھول کی تھاپ پر گھوڑوں کا رقص بھی پیش کیا گیا۔ چنانچہ راقم الحروف نے 1976ء میں جوخواب دیکھا تھا وہ آج کرتار پور راہداری کھلنے اور ننکانہ صاحب میں گرونانک یونیورسٹی کے سنگ بنیاد رکھے جانے کی صورت میں شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آنے لگا ہے۔ کرتار پور راہداری اور گرونانک یونیورسٹی کے قیام سے خالصتان کے قیام کی راہ ہموار ہوگی۔ 2020ء میں دنیا بھر کے سکھوں نے خالصتان کے قیام کیلئے 500 ممتاز سکھ شخصیات پر مشتمل پارلیمنٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ پارلیمنٹ سکھوں کی آزاد حکومت قائم کرے گی جو ہریانہ، ہماچل پردیش اور مشرقی پنجاب بلکہ ہندوستان کے کونے کونے میں بسنے والے سکھوں کی حمایت کیلئے ریفرنڈم کا انعقاد کرے گی۔ انگریزوں نے دہلی کو اپنا دارالحکومت بنایا تھا اور پنجاب کے علاقوں غازی آباد، سہارنپوراور میرٹھ کا وسیع علاقہ صوبہ پنجاب سے علیحدہ کر کے یوپی میں شامل کر دیا تھا۔ اس سے قبل دہلی، غازی آباد، سہارنپوراور میرٹھ پنجاب کے حصے تھے۔ سکھوں کی یہ بھی خواہش ہے کہ ان علاقوں کو خالصتان میں شامل کیا جائے۔