کوئی بھی ادارہ ہو چاہے وہ کوئی یونیورسٹی ہویا کوئی ہسپتال ! اسے چلانے کے لیے آپ کے پاس اس ادارے کا تجربہ یعنی ہنر کا ہونا بہت ضروری ہے ،اسی طرح کسی بھی ریاست کو چلانے کے لیے کوئی واضح ایجنڈا ور تجربہ کار ٹیم کا ہونا بہت ضروری ہے، مگر افسوس !ہم نے کامیابی کا معیار ہی غلط بنارکھاہے ،اگر پاکستان کے سیاسی خدوخال کا ہم معروضی طور پر جائزہ لے تو ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ یہ ملک بس اللہ توکل ہی ہے جو ابھی تک چل رہاہے وگرنہ جس بے دردی کے ساتھ اسے لوٹا گیااور اس کے اداروں کے ساتھ ناتجربہ کار اور کرپٹ لوگوں نے کھلواڑ کیاوہ ناقابل بیان ہے ،دنیا نے ہمارے تجربہ کار اور مختلف شعبوں کے ماہرین سے فائدے اٹھائے ایک ہم ہی ہیں کہ جس نے جمہوریت اور ریاست کو ابھی تک غیر ضروری لوگوں کے ہاتھوں تجربہ گاہ بنارکھا ہے یہ وہ ملک ہے جہاں انتہائی قابل لوگ اپنی ڈگریوں کو اٹھائے نوکریوں کے لیے دربدر ہیں اور کم پڑھے لکھے ایم این اے ایم پی ایز اورسفارشی لوگوںکی اجارہ داری ہے۔ ترقی کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہم امریکا اور یورپین ممالک کی طرف جھکاو کرکے ہی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں ہم اپنے مذہب اور دین کی طرف فوکس کرکے بھی ملک کو کامیابی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں ۔جہاں ایماندار اور تجربہ کارلوگوں کو ڈھونڈ کر انہیں فرائض سونپے جاسکتے ہیں اور منافق لوگوں سے جان چھڑوائی جاسکتی ہے۔ایک مرتبہ سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت حذیفہ بن یمان سے پوچھا کہ میری کابینہ میں کوئی منافق شخص بھی ہے ؟۔حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تمام منافین کے نام بتارکھے تھے اور انہیں صیغہ راز میں رکھنے کا حکم دیا تھاتو اس پر حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ہاں ایک شخص ہے جو منافق ہے مگر میں اس کا نام نہیں بتا سکتا، حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اس منافق شخص کو خود ہی ڈھونڈ نکالا اور اسے معزول کرکے ہی دم لیا۔ حکومتی کا بینہ میں جہاں ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور ان سے رابطے میں ہوتے ہیں وہاں ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہو یعنی کچھ شعبے ایسے ہوتے ہیں جو صرف اور صرف ماہرین کو ہی ملنے چاہیے جو اپنی پروفیشنل قابلیت کی بنیاد پر اس نظام کو چلانے میں مہارت رکھتے ہو ۔ ملک میں کچھ قابل زکر شعبے جن میں قانون،پارلیمانی افیئرز،امور داخلہ ، فنانس، تجارت، ایکسائز، آئی ٹی ،ہیلتھ اور ایجوکیشن سمیت دیگر شعبے موجود ہیں جن کو چلانے کے لیے ان شعبوں پر مسلط کیے گئے وزرا کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ وزیراپنے شعبے کے معاملات کو بخوبی سمجھتا ہواور یہ جانتاہوں کہ میں نے یہ وزرات کیسے سنبھالنی ہے ماضی میں ان ہی شعبوں پر جو لوگ مسلط رہے ہیں وہ صرف سفارش اور خواہشات کی وجہ سے ممکن ہوتا رہا یعنی جو ان ضروری محکموں کے وزیر رہے ہیں وہ دراصل ان محکموں کو چلانے کی کوئی اہلیت نہیں رکھتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ آج ہم کسی ایک شعبے میں بھی اس قابل نہیں ہے کہ جس پر فخر سے یہ کہا جاسکے کہ ہم نے ملک کے 72 سالوں میں فلاں شعبے میں کوئی ترقی کی ہو۔ آپ صحت کا شعبہ اٹھاکر دیکھ لیجے آپ اپنے تعلیمی نظام کی پسماندگی کو دیکھ لیجے ،آپ کو معلوم ہوجاے گا کہ ہم اس تیز رفتار دور میں کہاں کھڑے ہیں ،ہم یہ تو جانتے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگریہ نہیں جانتے ہیں کہ ہم ملک کی زراعت کا فائدہ کیسے اٹھاسکتے ہیں ، ایک چھوٹی سے مثال دینا چاہونگا، ہمارے ملک میں ایک قانون کا محکمہ بہت اہمیت کا حامل ہوتاہے وزیرقانون ایک ایسا آدمی ہونا چاہیے جو وزارت قانون کے افسروں کی صحیح نگرانی کرسکے ۔ قانون کے مسعودے وزارت قانون کے ماہر افسران بناتے ہیں لیکن وزیر قانون اتنا تجربہ کار ہوکہ وہ ان قانونی ماہرین کو موثر گائیڈ لائن دے سکے ناکہ خود ماتحت افسران کو اپنے دفتر میں ایک ایک کرکے بلارہاہوں اور ہر ایک سے پوچھ رہاہوں کہ یہ کیا لکھا ہے اور اس کا کیا مطلب ہے اور اب مجھے کیا کرنا چاہیے ، یہ تب ہی ہوتاہے جب آپ کسی گدھا گاڑی چلانے والے کو جہازمیں بٹھادیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ پائیلیٹ ہیں اور اب اس جہاز کو اڑایئے ، پھر اس کے بعد جو جہاز کا جوحال ہوگا وہ ہی ان محکموں کا حال ہے،یہ مثال کسی ایک محکمے کے لیے نہیں بلکہ بہت سے محکموں میں ہی کچھ ایسا ہی حال دکھائی دیتاہے ، اس کے علاوہ دنیا بھر میں دو شعبے ایسے بھی ہیں جن پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور وہ ہے تعلیم اور صحت اور یہ دونوں ہی وسیع شعبے کہلاتے ہیں ،دنیا بھر میں ان ہی شعبوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ قوموں کی ترقی میں ان ہی شعبوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے دنیا میں تعلیم اورصحت کے شعبوں کے لیے ان شعبوں کے ماہرین کو ہی آگے لایا جاتاہے اور کسی منظور نظر کے حوالے نہیں کیا جاتا۔ہماری بدنصیبی یہ رہی ہے کہ ان دونوں ہی اہم شعبوں کو کسی کے بھی حوالے کردیا جاتا رہا ہے جس کا نتیجہ آج یہ نکلا ہے کہ ہمارے ملک کا تعلیمی نظام ترقی یافتہ ممالک کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ صحت کا نظام بھی دنیا بھر میں مذاق وتنقیدکا نشانہ بنا ہوا ہے اس کی مثال یہ ہے کہ جس شخص نے اس ملک پرتین بار حکمرانی کی ہے وہ جب بھی بیمار پڑتا ہے تو اپنے علاج کے لیے اسے ملک سے باہر ہی جانا پڑتاہے ۔میں غربا اور مساکین کی مالی امداد کی غرض سے صوبہ سندھ کے تقرییاً ہر گوٹھ اور تعلقے میں جاچکاہوں جہاں میں نے تعلیمی اداروں کی بوسیدہ عمارتوں میں گدھے اور گھوڑوں کو بندھے دیکھا ہسپتالوں میں کتے اور سانپ کے کاٹنے کی ویکسین تک نہیں ہوتی جہاں تڑپ تڑپ کر لوگ مر جاتے ہیں مگر ان کے لیے ایک پینا ڈول کی گولی تک ہسپتالوں میں میسر نہیں ہوتی ،جہاں نہ تو ہسپتال کا عملہ موجود ہوتاہے اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر ،اگر بھولے سے کوئی ا یمبولینس مل بھی جائے تو اس میں پیٹرول موجود نہیں ہوتایہ صحت اور تعلیم کے وہ شعبے ہیں جس میں سالانہ اربوں کے بجٹ پاس ہوتے ہیں مگریہ کہاں لگتے ہیں یہ آج تک کسی کونہیں معلوم ہوسکا اس کی بنیادی وجوہات یہ ہے کہ جن وزیروں کو یہ شعبے سونپے جاتے ہیں وہ وزیر ان شعبوں کی الف اور ب تک نہیں جانتے جبکہ سب سے بڑھ کران لوگوں میں خلوص نیت کی کمی ہوتی ہے دولت جمع کرنے کی ہوس ہوتی ہے بے ایمانی اور منافت سے بھرے ان وزیروں کو کسی بھی قسم کا کوئی خوف خدا بھی نہیں ہوتا اور سب سے بڑھ کرعوام ایسے حالات میں کسی سے کوئی شکایت بھی نہیں کرسکتے کیونکہ اوپر سے لیکر نیچے تک آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہوتا ہے اوریہ ہی وجہ ہے کہ ہم سے ہمارا مستقبل ناراض ہے ۔