جی میں آتا ہے کہ دیکھوں اس زمیں کو کاٹ کر مجھ ہوائے خاک پر یہ کیسے نکلے بال و پر اے مری گلگشت تتلی لوٹ کر تو آ کبھی اس جہان رنگ و بو کی لا کوئی تازہ خبر بہار کا اثر تو ہر شے میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایک گھمبیر احساس تو اس کے تن بدن پر اترتا ہے جس پر گل رنگ وارد ہوتا ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ ہلکی ہلکی تمازت میں سبزے کی خوشبو میں تتلی کے تعاقب میں بندہ پھولوں میں گم ہو جائے مگر زندگی کی برہنہ حقیقتیں کہاں چین لینے دیتی ہیں۔ پھر قدرت چند ساعتوں کو تو گلاب کردیتی ہے۔ حرف تشکر لبوں پر مہلک اٹھتا ہے۔ کیا کریں زندگی تو کرنی ہے اور یہ سب رنگ جیسی بھی ہے اور بے رنگ چہرہ بھی رکھتی ہے۔ ایک جہد مسلسل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جبر مسلسل کی طرح بھی لگتی ہے۔ زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے‘ جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں۔ مگر ساغر یہ بھی کہتا تھا‘ کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے۔ مزے کی بات یہ کہ ارشد شاہین نے خالد احمد کے اشعار بھجوائے تو خالد احمد ہمیں بہت یاد آئے: زندگی بھر یہ بوجھ ڈھونا ہے آگہی عمر بھر کا رونا ہے کاش کوئی ہمیں یہ بتلا دے کس کے سینے سے لگ کے رونا ہے ہمیں یہ اشعار حسب حال لگے تو اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کردیے کہ لمحہ موجودہ میں جو کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے وہ خدا ہی جانتا ہے۔ یہیں نجیب احمد یاد آ گئے کہ ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہیں۔ہمارے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے۔ کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں۔ سب طاقتور ایک ہی پیج پر ہیں یہ تو اچھی بات ہے ۔ بھلا کوئی حکومت اپوزیشن کے بغیر ہی ہوتی ہے؟ ہمارا دوسرا دکھ یہ ہے کہ دوسری طرف بھی اقتدار کی ہوس ہے۔ تیسری طرف ایک اور غضب کہ لٹیروں اور چوروں سے تو ایک پائی نہ نکلوائی جا سکی مگر حکومت نے اس رقم سے کئی گنا عوام کی جیبوں سے نکلوا لی۔ اپنی ساری توانائیاں پہلے نوازشریف کو باہر نکالنے میں صرف کیں اور اب انہیں واپس لانے کے سر جوڑے جا رہے ہیں۔ لڑائو اور کھائو کے بارے میں لکھنے کا حوصلہ نہیں۔ چلیے ایک شعر حفیظ جالندھری کا پڑھ لیجئے۔ نوجوان شاعر عمران شناور نے بھیجا ہے: غم موجود ہے آنسو بھی ہیں‘ کھا تو رہا ہوں پی تو رہا ہوں جینا اور کسے کہتے ہیں اچھا خاصا جی تو رہا ہوں کیا کروں شاعر ہوں شعر سے شعر یاد آ جاتا ہے تو اسی بہانے بچھڑے ہوئے پیارے شاعر دوست یاد آنے لگتے ہیں‘ قتیل شفائی یاد آئے: تم پوچھو اور ہم نہ بتائیں ایسے تو حالات نہیں ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں کم از کم عارف علوی تو ادب شناس ہیں کہ ہم نے انہیں کانفرنس میں سنا تھا۔ چلیے سخن آشنا نہ سہی درد آشنا تو خان صاحب بھی ہیں۔ انہیں کم از کم اس چیز کا احساس تو ہے کہ مہنگائی سے لوگ تنگ ہیں۔ اپنی پریشانیاں وہ بتا ہی چکے ہیں لیکن تدارک وہ نہیں کر سکے ۔ ان کا شاید بس نہیں چلتا۔ ہمارا بھی تو زور چلتا ہے گریباں پر اب تک صرف وعدوں پر ہی بات ہے۔ پھر منیر نیازی سامنے آن کھڑے ہوئے: جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں اس نے وعدہ کر لیا‘ ہم نے بھی وعدہ کرلیا حیرت ہوتی ہے کہ کرنا کیا چاہیے اور کر کیا رہے ہیں۔ اب الیکشن کمیشن پر طبع آزمائی ہونے لگی ہے ایک اور تماشہ لگے گا۔ انتخابی اصلاحات کے لیے دس رکنی کمیٹی قائم ہو گئی ہے۔ قبلہ ایک لمحے کے لیے ہی سوچ لیں کہ ڈسکہ میں بیس پریذائیڈنگ افسروں کو الیکشن کمیشن نے غائب کیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ کارکردگی کا اندازہ پانچ سال بعد ہوگا مگر اڑھائی سال میں کوئی آغاز ہی نظر آ جائے۔ ساتھ ہی آپ فرما رہے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن ہر صورت میں ہوں گے۔ جناب تو آپ نے دو سال پہلے بھی کہا تھا۔ ویسے کم از کم فوجی حکومت میں اتنا تو ہو جاتا ہے کہ ہلکی پھلکی طاقت عوام کے نمائندوں کو بھی فراہم کردی جاتی ہے۔ سیاستدانوں کی تو جان جاتی ہے کہ کہیں ان کے اقربا یا دوستوں کے علاوہ کسی شریف آدمی کے پاس ذرا سا اختیار بھی نہ چلا جائے۔ نوازشریف نے تو اٹھارہ اٹھارہ وزارتیں اپنے ہی پاس رکھیں۔ اس دور میں بھی وزارتیں خان صاحب نے اپنے بندوں کو نہیں دئیں۔ ادھر ادھر کے گھومتے گھمانے چن کر لے گئے۔ اڑھائی سال بعد آپ کو بلدیات کا خیال تو آیا۔ ہائے اس زود پشیماں کا پیشمان ہونا: ہم نے مانا کہ غافل نہ کرو گے لیکن خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک چلیے ہم ایک اچھی بات حکومت کی آپ کے سات شیئر کرلیتے ہیں کہ اللہ نہ کرے کوئی خان صاحب سے بیر نہیں۔ صبح درس میں ڈاکٹر ناصر قریشی نے کورونا کے حوالے سے وہاں موجود لوگوں کو بتایا کہ کورونا کی ویکسین لگائی جا رہی ہے اور یہ ویکسین ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کے لیے ہے۔ وہ بتانے لگے کہ حیران کن حد تک حکومت نے سہولت فراہم کی اور ڈاکٹرز بھی مستعد ہیں۔ آپ لوگ آدھ گھنٹہ نکال کر ویکسین لگوا سکتے ہیں۔ بالکل بھی کوئی رکاوٹ نہیں۔ وہاں یبٹھے ہوئے ہمارے بزرگ دوست شیخ مختار نے بتایا کہ وہ اس مرحلے سے گز چکے ہیں۔ ذہن میں رہے کہ ان کی عمر ماشاء اللہ 88 برس ہے۔ میں نے ان سے اجازت لے کر کہا کہ انہوں نے ذرا جلدی کرلی۔ انہیں بارہ سال اور انتظار کرنا چاہیے تھا۔ ویکسین لگوانے کے لیے۔ وہاں موجود خواجہ شاہد اور آصف اعوان نے بھی سب کو بتایا کہ وہ بھی ویکسین لگوا چکے ہیں اور حکومت کی اس ضمن میں توصیف کرتے ہیں۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ ان دنوں کورونا کی تیسری لہر ہے مگر اکثر لوگ بڑے درد دل سے کہہ رہے تھے کہ جو بھی ہے ایس او پیز کے تحت بچوں کے سکول کھل جانے چاہئیں۔ اب تو حکومت کو لانگ مارچ کا بھی ڈر نہیں۔ پروفیسر فرقان قریشی بتا رہے تھے کہ پچھلے سال صرف چار ماہ پڑھائی ہوئی‘ کہ کتنے اساتذہ بیروزگار ہو چکے۔ مظفر بخاری کا ایک شعر: شر کی ترویج و ترقی کے لیے رہنما سارے کمر بستہ ہیں