روزنامہ 92 نیوز ملتان میں گزشتہ روز ایک خبر شائع ہوئی جس میں مطالبہ کیاگیا کہ سی ایس ایس کے امیدواروں کا انٹرویو لاہور کی بجائے ملتان میں لیا جائے ۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ 2019ء کے امتحان میں وسیب کے مختلف شہروں سے 25 امیدواروں نے امتحان پاس کیا اور ان کو انٹرویو کے لئے لاہور بلایا گیا ہے ۔ امیدواروں کے والدین کا کہنا ہے کہ رات بھر سفر کی تھکان کے باعث ان کے انٹرویو کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور اخراجات علاوہ ہیں ۔ امیدواروں کے والدین نے وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار اور چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ امیدواروں کے انٹرویو ملتان میں لئے جائیں ۔ روزنامہ 92 نیوز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ وسیب کے مسائل کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کر رہا ہے اور محروم طبقات کی زبان بن کر سامنے آیا ہے ۔ اس کے ساتھ میں یہ بھی عرض کروں گا کہ انٹرویو کا سنٹر ملتان میں ہونے کے ساتھ ساتھ انٹرویو لینے والے غیر جانبدار ہونے چاہئیں کہ وسیب کے لوگوں کو ہمیشہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ امیدوار اپنی محنت کے بل بوتے پر امتحان پاس کرتے ہیں اور ان کو انٹرویو میں فیل کر دیا جاتا ہے ۔ میں نے وزیراعظم عمران خان صاحب کی خدمت میں ایک درخواست بھیجی تھی کہ صوبے کے مسئلے پر وعدے ہو رہے ہیں ، وسیب کے پڑھے لکھے نوجوانوں کا مطالبہ ہے کہ جب تک صوبہ نہیں بن جاتا ، سی ایس ایس کا کوٹہ الگ کیا جائے کہ اس کی پہلے سے مثال موجود ہے۔ سندھ چھوٹا صوبہ ہے اس کے دو زون ہیں اور پنجاب اتنا بڑا صوبہ ہے یہاں ایک لولہا لنگڑا زون تھا وہ بھی ختم کر دیا گیا ،یہ اقدام امتیازی ہونے کے ساتھ ساتھ غیرمنصفانہ بھی ہے کہ وسیب کے نوجوانوں کا فیوچر ختم ہو رہا ہے اور وہ نفسیاتی مریض بن رہے ہیں ۔ سی ایس ایس کا کوٹہ سرائیکی وسیب کو آبادی کے مطابق ملنا چاہئے ۔ سی ایس ایس کے صوبائی کوٹہ کا مقصد پسماندہ علاقوں اور صوبوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانا تھا ، پنجاب میں اس کا الٹ اثر ہوا کہ پسماندہ سرائیکی علاقے کی آبادی کو شمار کر کے پنجاب نے کوٹہ حاصل کرتا ہے مگر سرائیکی علاقے کو تکنیکی انداز میںآؤٹ کر کے تمام اہم عہدے خود لے لیتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ بیورو کریسی میں سرائیکی وسیب کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے اس منشور کو آگے بڑھاجا ئے کہ امیر غریب سب کو انصاف ملنا چاہئے اور ’’ دو نہیں ایک پاکستان ‘‘ ہونا چاہئے ۔ سی ایس ایس کے امتحانی سسٹم کا مطالعہ کریں تویہ زیادتیوں کا لا متناہی سلسلہ اور تہہ در تہہ حق تلفی کی داستان ہے ‘پہلی زیادتی یہ ہے کہ حکمرانوں نے وسیب کو تعلیمی سہولتوں سے محروم رکھا ہے ۔تعلیمی سہولتیں برابر مہیا نہ ہوں تو مقابلہ در اصل کار اور جہاز سوار کا ہو جاتا ہے ۔روجھان،راجن پور ،بھکر ،بہاولنگر ،یا وہاڑی وغیرہ کے طالبعلم کا مقابلہ ایچی سن کالج کے طالبعلم سے کرانے کے نتیجہ میں اسی فیصد امیدوار تو مقابلے کی دوڑ سے پہلے ہی باہر ہوجاتے ہیں، دکھاوے کے طور پر چند ایک کو آنے دیا جاتا ہے۔ سی ایس ایس کے امتحان میں 100نمبروں کا ایک آپشنل پیپر پاکستانی زبانوں جس میں سندھی ،پنجابی ،پشتون اور بلوچی وغیرہ میں شامل ہیں، مگر سرائیکی اس میں شامل نہیں حالانکہ سرائیکی زبان یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھائی جا رہی ہے ،جس امیدوار نے گورنمنٹ کے اپنے اداروں سے اپنی گریجویشن اور ماسٹر سرائیکی میں کی ہے وہ سندھی بلوچی یا پشتو میں پیپر دیکر کس طرح نمبر لے سکتا ہے ؟سی ایس ایس کے امتحان میں سرائیکی زبان کو محروم رکھنا غلط ہے کہ سرائیکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جا رہی ہے اور اس میں ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔اردو ‘انگریزی ‘ پنجابی ‘ سندھی و دیگر پاکستانی زبانیں پڑھنے والوں کی طرح سرائیکی پڑھنے والوں کو بھی حق ملنا چاہئے ۔ اقتدار ملنے کے بعد پنجاب کے سیاستدان اور افسران بہت سمجھدار ہو چکے ہیں وہ اس طرح کی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں جس کا فائدہ پنجاب کو ملے۔ سی ایس ایس کا امتحان بھی اسی طرح کا ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے محروم اور پسماندہ خطے کو اپنا دست نگر بنا کر رکھنا ہے ۔ اب پنجاب کے بیورو کریٹ اور سمجھدارسیاستدان اپنی اولادوں کو ڈاکٹر یا انجینئربنانے کی بجائے انہیں سی ایس ایس کراتے ہیں ، وہ اپنی اولادوں کو سمجھاتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر کا مطلب ایک ڈاکٹر ہے لیکن اگر تم سی ایس ایس کر کے صوبے کے سیکرٹری صحت بنو گے تو پورے صوبے کے ہسپتال اور چھوٹے بڑے تمام ڈاکٹر تمہارے ماتحت ہوں گے ۔ اسی طرح ایک انجینئر کا مطلب بھی ایک انجینئر ہے ۔ اگر تم ڈی سی او ، ڈی پی او یا سیکرٹری بنو گے تو بڑے بڑے انجینئر تمہارے حضور پیش ہوں گے ۔ اعلیٰ تعلیمی امتحانات میں سب سے زیادہ اہمیت سی ایس ایس کو حاصل ہے کہنے کو تو چپراسی سے چیف سیکرٹری تک ہر سرکاری ملازم ’’نوکر ‘‘ہے مگر سی ایس ایس خصوصاً ڈی ایم جی اور پولیس افسران کیلئے یہ بات صرف کہنے کی حد تک ہے ،ان افسران کو انگلش سسٹم کے تحت ٹریننگ بھی ’’نوکر ‘‘ والی نہیں بلکہ ’’آقا ‘‘ والی دی جاتی ہے ،ایک سی ایس ایس افسر وزیرسے زیادہ اہم اس لیے ہوتا ہے کہ ’’وزارتیں ‘‘آتی جاتی رہتی ہیں مگر افسر جہاں بھی بیٹھاہو ’’حاکم ‘‘ ہی ہے ،تقسیم سے پہلے انگریز نے’’ حق حکمرانی‘‘ اپنے وفاداروں کو دیا جس کے نتیجے میں ان پڑھ سردار وڈیرے اور تمندار مجسٹریٹ ‘جج اور پولیٹیکل ایجنٹ مقرر ہوئے مزید بر آں انگریز دور میں بیورو کریسی کی بڑی تعداد صوبہ پنجاب اور یو پی، سی پی سے شامل ہوئی اور انہی کو سب سے زیادہ مراعات ملیں ۔ انگریز دور میں بھی ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ان محروم طبقات کو حق ملنا چاہئے جن کی پاکستان کیلئے قربانیاں ہیں ۔ آزادی کیلئے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والے آزادی کے بعد بھی پیچھے رہ گئے ، منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے کے مصداق حکمران طبقہ آج بھی قربانیاں دینے والے غریبوں کی اولادوں کو آگے نہیں آنے دے رہا ۔سی ایس ایس کے امتحان میں ہر بارمحکوم خطے کے محروم طالبعلموں سے ’’ہاتھ ‘‘ ہوتا ہے، سینکڑوں طلبہ کو فیل کر دیا جاتا ہے ،غیر قانونی حربوں کے علاوہ پبلک سروس کمیشن کے پاس پوزیشنیں تبدیل کرنے کا سب سے بڑا قانونی ہتھیار 300نمبروں کا انٹرویو ہے جو کہ چیئر مین اور ممبران کے طے کردہ ’’باہمی فارمولے‘‘ کے تحت صوابدیدی اختیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔یہ انٹرویو محروم اور لا وارث امیدواروں کیلئے ایک ایسی ننگی تلوار ہے جس میں ہزاروں امیدواروں کا مستقبل قتل ہوتا چلا آ رہا ہے ۔ حق تلفی کا شکار ہونیوالوں میں وسیب کے مہاجر ، پنجابی سب شامل ہیں۔