پچھلے کئی دن سے سینیٹر بننے کے خواہش مند افراد نیب عدالتوں کے چکرکاٹ رہے ہیں ۔پچھلے ایک مہینے کے دوران جب بھی شہباز شریف منی لانڈرنگ ، آشیانہ یا رمضان شوگر ملز کیس کی سماعت کے لیے عدالت میں پیش ہوتے ، یہ افراد پارٹی کے صدر شہباز شریف سے ملنے اور انہیں رام کرنے کے لیے عدالت پہنچ جاتے ۔ عدالت میں آنے والے رہنمائوں میں ایک راجہ ظفر الحق ہیں جو کارکنوں کی دھکم پیل اور اپنی بزرگی کی پروا کیے بغیر عدالت آ رہے تھے تا کہ سینیٹر بننے کے لیے اپنی راہ ہموار کر سکیں ۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق وہ اپنا نام سینیٹرز کی فہرست میں شامل کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ لاہور کی نیب کورٹ میں دو خواتین بھی شہباز شریف سے ملاقات کرتی پائی گئیں ان میں ایک سائرہ افضل تارڑ تھیں اور دوسری شاہد خاقان عباسی کی بہن سعدیہ عباسی ۔ ان دونوں کے درمیان خواتین کی مخصوص نشست پر سینیٹ میں براجمان ہونے کے لیے کھینچا تانی جاری ہے۔ سعدیہ عباسی ن لیگ ہی کے پلیٹ فارم سے 2018 میں بھی سینیٹر بنی تھیں مگر اُسی سال دوہری شہریت کے معاملے پر سینیٹ کی سیٹ انہیں چھوڑنا پڑی تھی۔ گذشتہ ہفتے وہ لاہور کی نیب کورٹ نمبر 5 میں شہباز شریف کے ساتھ بڑے تپاک سے ملاقات کرتے پائی گئیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اپنا نام فہرست میں شامل کرانے میں کامیاب ہو گئی ہیں جبکہ کچھ لوگوں کے خیال میں سائرہ افضل تارڑ زیادہ بہتر طریقے سے قیادت کا اعتماد جیتنے میں کامیاب رہی ہیں۔خواتین ہی کی مخصوص نشست سے سینیٹر بننے کے لیے ایک اور خاتون بھی زور لگارہی تھیں اور وہ تھیں عائشہ رضا۔عائشہ رضا اس وقت بھی سینیٹر ہیں اور ان کی مدت آئیندہ ماہ ختم ہو رہی ہے، وہ دوبارہ سینیٹر بننے کی خواہش مند ہیں ۔ وہ خود تو زیادہ عدالت میں نہیں آتی تھیں لیکن مصطفی رمدے کی آج کل عدالت میں آمد و رفت اور شہباز شریف سے سرگوشیاں خاصی بڑھ گئی تھیں۔مصطفی رمدے ایک اہم کیس میں شہباز شریف کے وکیل بھی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مصطفی رمدے اپنی بھابھی عائشہ رضا کے لیے لابنگ کرتے رہے لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ رواں ہفتے سینیٹر عبدالقیوم بھی شہباز شریف سے ملنے کے لیے عدالت میں دکھائی دیے ۔ شہباز شریف نے رسمی طور پر ان کے سلام کا جواب تو دیا لیکن زیادہ گرمجوشی نہ دکھائی۔ سینیٹر قیوم سے ناراضی سمجھ آتی بھی ہے ۔ جب نواز شریف نے فوج کے خلاف لندن میں بیٹھ کر سخت زبان استعمال کی تھی تو جنرل صاحب نواز شریف کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے تھے بلکہ درمیانی راہ لیتے دکھائی دیے تھے ،ایسے میںامکان بھی یہی تھا کہ جنرل قیوم کو دوبارہ سینیٹ کا ٹکٹ نہیں ملے گا اور ہوا بھی ایسا ہی۔ اسی ہفتے ایک اور سینیٹر بھی کمرہ عدالت نمبر2 میں اداس بیٹھے دکھائی دیے۔ یہ صاحب موجودہ سینیٹر ہیں اور ان کی چھ سالہ مدت ختم ہو رہی ہے۔ عدالت میں شہباز شریف سے ملنے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ کُل پانچ سیٹیں ہیں ، ٹیکنوکریٹ اور خاتون کی سیٹ نکال دیں تو محض تین ہی بچتی ہیں ، لہذا سخت مقابلہ ہونے کے باعث ان کے دوبارہ سینیٹر بننے کا کوئی امکان موجود نہیں تھا ۔ ان کا نام تھا ڈاکٹر غوث نیازی جو آئے تو شہباز شریف سے سینیٹ کا ٹکٹ لینے تھے لیکن مایوس ہو کر لوٹے۔ اس ہفتے منگل ، بدھ اور جمعرات مسلسل تین دن تک شہباز شریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے ۔ ایک دن رمضان شوگر مل کیس میں ، دوسرے دن منی لانڈرنگ اور تیسرے دن آشیانہ میں ۔ تینوں دن عدالت میں خوب چہل پہل رہی۔ سیاسی ملاقاتیں عروج پر رہیں ۔ سلام بجتے رہے، مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ ان میں سے کچھ تو ایسے تھے جو اپنی کارکردگی کچھ زیادہ ہی اچھی دکھانے کے لیے ایک آدھ گاڑی کارکنوں کی بھی بھر کے لے آئے جو احاطۂ عدالت میں شہباز شریف زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ مگر ان میں سے زیادہ تر کے پیسے اور محنت ضائع ہو گئی۔ شہباز شریف سے عدالت میں اس ہفتے ملاقات کرنے والوں میں خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، ایاز صادق ،رفیق رجوانہ، خواجہ احمد حسان ، طاہرہ اورنگزیب اور شائستہ پرویز بھی شامل رہیں ۔ مریم اورنگزیب اور عظمی بخاری تو خیر ہر سماعت پر عدالت پہنچتی ہیں۔یہ تمام رہنما پورا ہفتہ شہباز شریف سے سینیٹ انتخابات پہ مشاورت کرتے رہے۔ ایاز صادق تو پرچی پر کچھ لکھ کر لائے تھے ، شایدسینیٹ کے ٹکٹ کے لیے کسی کی سفارش کر رہے ہوں گے ، ایسے ہی باقی رہنما بھی اپنی پسند وناپسندا ور سینیٹ الیکشنز کے لیے اپنی حکمت عملی بیان کرتے رہے۔ ان دنوں میں اوپن بیلیٹنگ خوب بحث کا موضوع رہی۔ شہباز شریف نے تین دن میں متعدد بار نواز شریف سے ٹیلی فون پر بات کی۔ اوپن بیلیٹنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ ن لیگ کے کچھ رہنمائوں کا خیال ہے کہ وہ تحریک انصاف کے کچھ ایم پی ایز کو ساتھ ملا چکے ہیں اور پانچ کی بجائے چھ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان کا اشارہ شایدخرم لغاری اور ان کے ساتھیوں کی طرف ہے ۔ بہر حال ابھی تک کی صورتحال کے مطابق پرویز رشید، محمد زبیر، راجہ ظفر الحق، اعظم نذیر تارڑاور ساجد میر سینیٹ کے لیے اپنا راستہ ہموار کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ سعدیہ عباسی اور سائرہ افضل تارڑ میں سے کسی ایک کو سینیٹ میں کرسی ملے گی، دیکھئے کون کامیاب ہوتا ہے ۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اگر ن لیگ چھ کی بجائے اپنی پانچ نشستیں ہی جتتی ہے جس کی وہ حقدار ہے تو اول الذکر تین ناموں میں سے کون ہے جو گھر پہ رہے گا ۔ محمد زبیر یا راجہ ظفر الحق؟ دیکھئے کس کو سینٹ کاراستہ ملتا ہے کس کو گھر کا۔لیکن یہ انتخابات اس لحاظ سے ضرور مختلف ہیں کہ اس بار سینیٹ کا راستہ نیب عدالت سے ہو کے گزرا ہے ۔