پنجابی میں کہتے ہیں: ہووے جٹ تے نہ دیوے مُچھاں نوں وَٹ، مَیں نئیں من دا… لیکن دوستو! ادب میں، مَیں جن تین جاٹوں کے کارناموںپہ فریفتہ ہوں بلکہ جو میرے دل میں بستے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ان میں دو تو کلین شیوڈ ہیں اور تیسرے کی تنی مونچھیں گھنی داڑھی کی بھول بھلیوں میں یوں گم تھیں کہ جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب کی یادوں میں گم ہوتا ہے۔ ویسے میرااپنا خیال ہے کہ ہمیں کسی اَنکھاں والے جاٹ کی مونچھیں اُس کے چہرے پہ نہیں، کردار میں تلاش کرنی چاہئیں۔ ممتاز مفتی کہا کرتے تھے، مونچھ مروڑ کسی خاص آدمی نہیں بلکہ رویے کا نام ہوتا ہے۔ جاٹوں میں اس رویے کے ساتھ ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں بھوکے مر جاتے ہیں، کبھی شہدے پن کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی جٹ ہونے کا دعویٰ کرنے کے ساتھ لینج پُنے یاشہدے پن کا بھی مظاہرہ کرتا ہے تو اس کو بے شک کوئی فنکار مان لے، افسر مان لے، حتّٰی کہ انسان مان لے تو مان لے، ہم جٹ ہر گز نہیں مانیں گے۔ ہم اپنی زندگی میں ذات پات کے قائل نہیں لیکن بہت سے لوگوں میں خاندانی تاثیر کا خوب مشاہدہ کیا ہے بلکہ بعض اوقات بھگتا بھی ہے۔ ہمارے ایک طرح دار ادیب اخلاق احمد دہلوی اپنی کتاب ’’یادوں کا سفر‘‘ میں دہلی کے کسی حکیم صاحب کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’ایک دفعہ ایک چمار آیا اور کہا: حکیم صاحب میرے سر میں درد ہے۔ حکیم محمد احمد خاں نے فرمایا: جوتے لگاؤ اس کے سر پر!! دردِ سر شرفا کی بیماری ہے۔ تیرے بغل گند ہوتی، کوئی گندا ناسور ہوتا ، گاگن ہوتی تو علاج کر دیتا۔ سر کا درد اور چمار، کیا معنی؟ تمہید ذرا طویل ہو گئی ہے، اصل میں، مَیں آج آپ کو اپنے تین جاٹ ادیبوں بلکہ ہیروز اور ان کے کردار کی بابت بتانا چاہتا ہوں۔ان میں ایک تو اُردو شاعری کے بے تاج بادشاہ فیض احمد فیض ہیں۔ مَیں نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک زمانے میں نام نہاد ترقی پسندوں نے شاعرِ مشرق کی کردار کُشی کی مہم کا پروگرام بنایا۔ اس سلسلے میں فیض کی حکمتِ عملی اور خاندانی پن ملاحظہ ہو: ’’1949ء میں حکم ہوا کہ علامہ اقبال کو demolsh کریں … پھر ایک روز مظہر علی کے گیراج میں انجمن کی میٹنگ ہوئی، صفدر میر صدر تھے۔قاسمی صاحب نے علامہ اقبال کے خلاف ایک بھرپور مقالہ پڑھا۔ ہمیں بہت رنج ہوا، ہم نے اعتراض کیا کہ یہ کیا تماشا ہے؟ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ یہ تو سکہ بند قسم کی بے معنی انتہا پسندی ہے۔ہماری نہ مانی گئی، ہم بہت دل برداشتہ ہوئے۔ اس کے بعد ہم انجمن کی محفلوں میں شریک نہیں ہوئے اور صرف ’پاکستان ٹائمز‘ چلاتے رہے۔‘‘ (ہم کہ ٹھہرے اجنبی) پھر پنجابی کہانی کو امر کر دینے والے کلونت سنگھ وِرک ہیں،جنھیں پنجابی میں مختصر افسانے کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ ان کا تعلق شیخوپورہ کے گاؤں پھلرون سے تھا۔ 1947ء میں مشرقی پنجاب سدھارے۔ مختلف سرکاری عہدوں سے ہوتے ہوئے بطور اسٹیبشلمنٹ کمشنر ریٹائر ہوئے۔ بھارت کا سب سے بڑا ساہتک اکیڈمی ایوارڈ بھی ملا لیکن آپ ان کے افسانوی مجموعے (چھاء ویلا، دھرتی تے آکاش، دُدھ دا چھپڑ، گوہلاں، دو آدشی،نویں لوک، استبازی وغیرہ) اٹھا کے دیکھ لیجیے، نہ ان کا اپنی جنم بھومی سے پیار ماند پڑا ہے اور نہ اپنا ماضی اور اوقات بھولے ہیں۔ لیکن دوستو! آج ہم ان دونوں بزرگوں کو بائی کرتے ہوئے اپنے حاضر سروس ادبی جرنیل، اُردو سفرنامے اور ناول کے لیجنڈری ہیرو، پاکستانی ثقافت اور دل فریب وادیوں کی صورت وطنِ عزیز کا حسین و جمیل چہرہ دنیا کو دکھانے والے اور آج اپنی عمرِ عزیز کے بیاسی سال پورے کر لینے والے مہان قلم کار، بے پناہ ادیب جناب مستنصر حسین تارڑ کی بات کریں گے۔ خدا ایسی توفیق کم کم ادیبوں کو عطا کرتا ہے کہ زندگی کی آٹھ دہائیاں گزار لینے کے بعد بھی ان کا رہوارِ قلم ادب کے ریس کورس میں پوری توانائی کے ساتھ دوڑتا ہو۔ مستنصر حسین تارڑ کی زندگی کا بیشتر حصہ لاہور میں بسر ہوا، ان کا قلم اس شہرِ بے مثال کی چلتی پھرتی تاریخ اور ان کے قدم اس کا جغرافیہ لکیرتے لکیرتے بڑے ہوئے ہیں۔ پوری دنیا گھومی لیکن دل کا چَین اور روح کا قرار ہمیشہ لاہور کی گلیوں ہی میں میسر آیا۔پروین شاکر نے ایسے ہی سیماب صفت لوگوں کی آوارگی کو بوجوہ مستحسن نظروں سے دیکھا تھا بلکہ یہ کہہ کے ہرجائی پن کا معقول جواز بھی فراہم کیا تھا: وہ کہیں بھی گیا لَوٹا تو مِرے پاس آیا اِک یہی بات ہے اچھی میرے ہر جائی کی ٹیلی ویژن ان کی ذات میں اور آوارہ گردی ان کی صفات میں بہت دور تک گھسے ہوئے ہیں۔ صبح کی نشریات کا سنگِ بنیاد انھوں نے اپنے ہاتھوں سے رکھا بلکہ ان کے بقول اس وقت مختلف چینلوں پہ زوروشور(زورکم، شور زیادہ) سے جاری مارننگ شوز، پی ٹی وی کے اسی رنگ برنگے شو کے کلبلاتے بچے ہیں۔ اُردو ادب کا یہ رمتا جوگی اکبری منڈی میں بیج بیچتے بیچتے سیر سپاٹے کی غرض سے ایسا نکلا کہ پوری دنیا میں آوارگی، دل لگی اور مطالعے کی تشنگی کے بیج بوتا چلا گیا۔ جس دور کو یار لوگ مطالعے کے بحران اور کتاب کے فقدان کا دور کہتے ہیں، اس کے ہاں اس دور میں بھی نئے سے نئے موضوعات پہ ناولوں اور سفرناموں کی فصلیں اور جدید سے جدید قارئین کی نسلیں تیار ہوتی چلی گئیں۔ کتابوں کے ایڈیشنز اور رائلٹی کی کمشنز کا پاؤں بھاری سے بھاری تر ہوتا چلا گیا۔ اس کا خاندانی پن ملاحظہ ہو کہ گزشتہ نصف صدی سے یہ کتابیں لکھ کے پھاوا ہو گیا لیکن اس نے کبھی کسی کرپٹ حکمران ، کسی مکروہ وڈیرے، کسی خوف ناک آمر کے آگے بھٹئی پُنا نہیں کیا۔ بُوٹ پالشی کر کے سرکاری عہدہ اور مالی مراعات حاصل نہیں کیں۔ سلام تارڑ صاحب!!!