ملک کا سیاسی نظام 1970ء میں ہونے والے عام انتخابات سے شروع ہوتا ہے ،مگر اس میں تسلسل 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے شروع ہو کر 1997ء تک رہتا ہے۔ بعد ازاں 2002ء میں آمریت کے سائے میں الیکشن ہوتے ہیں ،تو یہ تسلسل ایک بارپھر شروع ہوتا ہے اور 2018ء تک پہنچ کراگلے انتخابات پر محیط ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔انتخابات کی اس تاریخ میں تین موڑ ایسے آتے ہیں جو سیاسی نظام کو مکمل طوپر غیر مفیدبنا کررکھ دیتے ہیں۔انتخابی تاریخ میں 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات ،سیاسی نظام میں شخصی تصور کومضبوط کرکے ،ووٹر کے شعوری عمل کو کمزور کرنے کا سبب بن گئے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2018ء کے عام انتخابات میں بھی شخصیات کے نام پر ووٹ کا تصور کارگررہا۔شخصی تصورنے ذات برادری،دھڑا بندی،فرقہ بندی کی سیاست کو متعارف کروایا،جس سے سیاسی نظام مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہوتا چلا گیا ،ووٹرز کا ووٹ شخصیت ،دھڑے بندے ،ذات برادری اور فرقہ بندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔یوں ووٹ شعوری سطح پر کاسٹ نہ ہوسکا۔انتخابی تاریخ میں دوسرا موڑ آمریت کے سائے میں2002ء میں انعقاد پذیر ہونے والے انتخابات کی صورت وقوع پذیر ہوتا ہے۔ 2002ء کے انتخابات نے ملکی سیاسی نظام میں دوسیاسی جماعتوں کی جگہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے راہ ہموار کی۔نوے کی دہائی میں دوجماعتوں کے مابین انتخابات ہوتے رہے،جب 2002ء کے انتخابات ہوئے تو دوجماعتوں کے بیچ میں تیسری جماعت نکالی گئی ،جس نے حکومت سازی کی۔دوجماعتی اقتدار اپنے اختتام کو پہنچا۔جیسے ہی دوجماعتی اقتدار اپنے اختتام کو پہنچا ،سیاسی نظام طاقت وروں کے قبضہ میں آتا چلا گیا۔اس ملک کی سیاسی و جمہوری تاریخ اور عمل یہ تقاضا کرتا ہے کہ یہاں کا سیا سی نظام دوجماعتوں کے گردگھومتا رہے۔اگر دوجماعتوںکے مابین اقتدار منتقل ہوتارہتا تو عوام کو زیادہ فائدہ پہنچتا۔جب مذکورہ انتخابات میں تیسری جماعت کی گنجائش نکالی گئی تو دَرحقیقت سیاسی جماعتوں کو ناکام کرنے کے لیے ایسا کیِا گیا،نہ کہ عوام کی فلاح کو پیشِ نظر رکھاگیا۔اس ملک میں ایک سوتیس سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہیں۔یہ اس ملک کی سیاست کا المیہ ہے۔اقتدار کے لیے جب الگ سے ایک سیاسی جماعت تشکیل دی گئی تو ایسا طاقتور طبقات کی جانب سے اپنے مفادات کی خاطر بڑی سیاسی جماعتوں کو ختم کرنے اور بعض سیاست دانوں کو سیاسی عمل سے خارج کرنے کے لیے کیِاگیا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی نظام اپاہج ہو کررہ گیا ۔اس سے ملک و قوم کا فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہونا شروع ہوا۔ ملکی سیاسی و انتخابی تاریخ میں تیسرا موڑ 2013ء کے عام انتخابات میں آیا جب پاکستان تحریکِ انصاف کا ظہور ہوا،اگرچہ یہ سیاسی جماعت نوے کی دہائی میں تشکیل پائی تھی ،مگر اس کو عروج 2008ء کے عام انتخابات سے 2013ء کے عام انتخابات کے درمیان ملا۔اس سیاسی جماعت کو عروج ،اِن کے اپنے منشور ،ویژن اور حکمتِ عملی سے زیادہ غیر فطری انداز میں میسر آیا۔2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں یہ جماعت ایک صوبہ میں حکومت سازی میں کامیاب ہوئی اور 2018ء تک اِ س کی احتجاجی تحریک کی بدولت وفاق میں برسرِ اقتدار حکومت کو عوام پر فوکس کرنے کا صحیح طریقہ سے موقع ہی نہ ملا۔حالانکہ 2013ء میں اقتدار میں آنے والی حکومت نے اپنی محنت اور پالیسی سے جلد ہی انرجی بحران اور دہشت گردی جیسے مسائل پر قابو پالیا تھا۔اگر حکومت کو اپنی معینہ مُدت تک کام کرنے کا موقع ملتا تو کئی دیگر عوامی منصوبے تکمیل کو پہنچ سکتے تھے ،سی پیک جیسے منصوبے کو طاقت بہم میسر آسکتی تھی۔اسی طرح 2008ء میں منتخب ہونے والی پیپلزپارٹی کی حکومت نے کئی آئینی مسائل کی گتھیوں کو سلجھادِیا تھا ،آصف علی زرداری نے وزیرِ اعظم کو اختیارات میں زیادہ مضبوط بنادیا تھالیکن پاکستان تحریکِ انصاف نے 2013ء سے 2018ء تک حکومت کومشکلا ت میں ڈالے رکھا۔جب 2018ء کے انتخابات ہوئے تو یہ جماعت وفاق کے ساتھ دوصوبوں میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ،مگر یہ دونوں بڑی جماعتوں کے اُمیدواروں کو توڑ کر اور اپنے ساتھ ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ،یوں تاحال یہ عوامی مسائل کو سلجھانے اور ملکی نظام کو مضبوط کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اب جب یہ اپنے اقتدار کا تیسرا سال مکمل کرچکی ہے ،تو عوامی سطح پر ایک ناکام حکومت کے طورپر اپنا تاثر قائم کروا رہی ہے۔اگر اس سیاسی جماعت کا ارتقا فطری انداز میں ہوتااور یہ سیاسی عمل میں نئے چہروں کو متعارف کروانے میں کامیاب ٹھہرتی تو ملکی سیاسی نظام میں واضح تبدیلی آجاتی ،چونکہ اس کے نیچرل ارتقا کو سبوتاژ کردیا گیا ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا اقتدار سیاست کا پراگندہ کرنے کا سبب بن رہا ہے۔سیاست میں انتقام اور گالم گلوچ کو فروغ مل چکا ہے۔پارلیمان کمزور پڑچکا ہے اور اداروں کے مابین تصادم اور تشویش پیداہوچکی ہے۔صدارتی ریفرنسز کے ذریعے اپنی خواہشات کی تکمیل کی جارہی ہے۔ اگر نوے کی دہائی کی دوسیاسی جماعتیں تسلسل کے ساتھ حکومت سازی کے عمل کو جاری رکھ پاتیں اور اِن میں نقب بھی نہ لگائی جاتی تو اب دونوں جماعتوں کا سیاسی کلچر بہت میچور ہوچکا ہوتا۔ اگر یہ نوے کی دہائی میں انتقامی سیاست کی حامل رہی تھیں تو 2018ء تک پہنچتے پہنچتے اِن کی سیاست عوامی مسائل اور ملکی مفاد کی جانب راغب ہوچکی ہوتی۔میرا تجزیہ کہتا ہے کہ 1985ء کے غیر جماعتی بنیادوں نے سیاسی عمل میں جو قباحتیں پیدا کیں ،اُس سے کہیں زیادہ قباحتیں نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل نے جنم دیں۔لیکن آنے والے وقت میں اس ملک کا سیاسی نظام دوجماعتوں کے گرد گھومتا ہوا پایا جائے گا۔2002ء میں تشکیل پانے والی ق لیگ محض چند سیٹوں تک محدود ہوچکی ہے اور اگلے انتخابات میں یہ مزید محدود ہوجائے گی اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس کی حیثیت غبار ہو کر رہ جائے گی۔ایسا ہی کچھ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ،اگر اگلے الیکشن میں الیکٹ ایبلز کا موڈ بدل گیا تو پھر کیا ہوگا؟