اس سے ٹوٹا جو تعلق تو کہاں ہوش رہا گھنٹیاں بجتی رہیں اور میں خاموش رہا وہ محبت کا کوئی لفظ نہ لب تک لایا اور میں تھا کہ برابر ہمہ تن گوش رہا جناب غیر متوقع صورتحال کے لئے ہر کوئی تیار نہیں ہوتا کہ کوئی کہہ دے کہ’’ یہ بھی رکھا تھا دھیان میں ہم نے ،وہ اچانک اگر بدل جائے ‘‘،جو بھی ہے دنیا تو انحصار اور اعتماد پر چلتی ہے اختیار تو اقتدار پر بھی نہیں ہوتا۔ خان صاحب اعتماد کا ووٹ لینے لے چکے ہیںیقینا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھااور اگر ہو بھی تو زیادہ سبکی کا تھا۔ کیا کیا جائے یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سربزم یار چلے گئے۔ بنیاد میں اینٹ ٹیڑھی رکھی جائے تو آسمان تک بھی دیوار ٹیڑھی ہی جائے گی یہ سعد نہیں بلکہ سعدی کا قول ہے اور آفاقی سچائی اور فطری دانش کسی کے لئے قانون فطرت تو نہیں بدل سکتی یہاں تبدیلی نہیں چلتی نہ اچھی نہ بری۔ میں محترم دوست سلیم کوثر کے اشعار سن رہا تھا تو موجودہ سیٹ اپ کے حوالے سے ان اشعار نے بہت مزہ دیا کہ انتہائی سنجیدہ اشعار کے معنی بھی کتنے دلگداز اور لطیف ہو جاتے ہیں میں نے مزاحیہ کا لفظ سلیم کوثر کے ڈر سے نہیں لکھا: میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے سر آئینہ میرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے جب اخلاقیات کا دیوالیہ نکل جائے تو ایسے ہی ہوتا ہے ایک سیدھی سی بات ان ٹیڑھے لوگوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔ جو شخص گھر میں چوری کر سکتا ہے وہ باہر کیوں نہیں بلکہ ایک مرتبہ پھر مجھے سعدی یاد آتے ہیں کہ چہ دزدے دلاور است کہ بکف چراغ دارد ۔ چور کتنا بہادر ہے کہ چراغ ہتھیلی پر رکھ کر پھرتا ہے جی ہاں وہی کہ چوری اور سینہ زوری۔ میں بات کر رہا تھا رویوں کی کہ مشتاق احمد یوسفی کے بقول کہ فلاں کی چال سے اس کے چال چلن ٹپکتے تھے تو قبلہ ہمارے سیاستدان اپنی نشست و برخواست سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ نوٹوں کے درمیان نوٹ گنتے ہوئے کچھ بیوپاری اور کچھ بھیڑ بکریوں سے مشابہ ۔ یہ قوم کی بدبختی اور نامہ اعمال کے ایسے لوگ اس پر مسلط ہو گئے آپ طرفہ تماشہ دیکھیں وہ 16بکائو بکرے جنہوں نے شیخ حفیظ کو پٹخ دیا اور وہ سنگلی تڑوا کر زرداری کے پائوں یا ہاتھ چاٹ گئے ایک مرتبہ پھر عمران خاں کو اعتماد کا ووٹ دینے آئے بیٹھے ۔ یعنی آشنا کے ساتھ پکڑے جانے کے بعد اپنے میاں کو یقین دلانا کہ تہہ دل سے اس کے ساتھ مخلص ہے: محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے بڑے لوگوں میں تضاد بھی بڑے ہوتے ہیں اور ادھر تو تضادات کا ایک ضخیم مجموعہ شائع ہو چکا ہے معاف کیجیے یہ وہی لوگ ہیں جو گھومتے گھماتے کبھی ادھر اور ادھر اور ان کا ریموٹ کنٹرول پیسہ ہے: رائیگانی سی رائیگانی ہے یہ مرے عہد کی کہانی ہے کیسی مزے کی بات ہے کہ خرید کرنے والا بیوپاری تو کھلے عام سب کے سامنے ہے اور تالیاں بجا رہے ہیں مگر وہ بکائو مال ابھی تک چھپا ہوا ہے مشکوک ہے ویڈیو میں نظر آنے کے باوجود بھی نوٹس میں نہیں۔ کسی نے سوال کیا کہ دو ویڈیوز میں بکنے خریدنے اور مووی بنانے والے سب پی ٹی آئی کے کیوں؟ اس کا جواب اتنا بھی مشکل نہیں ہے اصل میں یہ تمام پارٹیوں کے ریلو کٹے ہیں جو ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں: خود کو یوسف بتا رہے ہیں وہ کوئی آئے خرید لے ان کو سچی بات لوگوں سے کیوں چھپائی جا رہی ہے کہ اعتماد کا ووٹ تو بنتا ہی تھا اور یہ مل بھی گیا کہ ان بے ضمیر 16ممبران نے عمران خاں کو ووٹ دیا کہ وہ افورڈ ہی نہیں کر سکتے کہ عمران خاں نہ رہیں اور انتخاب ہو جائیں پھر وہ کس منہ سے اپنے اپنے حلقوں میں ووٹ مانگنے جائیں گے کہ ابھی تک انہوں نے کوئی کام ہی کہیں نہیںکروایا۔ابھی تو وہ پچاس کروڑ بھی مشکوک ہیں جو وعدے کی حد تک ہیں۔ یہ بات بھی پھینکنے والی نہیں کہ چاروں صوبوں میں جہاں پی ٹی آئی جیتی وہاں سب ٹھیک ہے اور سیٹ کے ہارنے پر الیکشن کمیشن کو سینگوں پر دھر لیا گیا۔ چلیے اب کوئی کام کی بات بھی کر لیں کہ ابھی ایک کتاب موصول ہوئی ہے ’’موسم خوش رنگ‘‘ اس پر میں انشاء اللہ پڑھنے کے بعد لکھوں گا کہ یہ زندگی کی پیشانی پر لکھی ہوئی تحریریں جناب شاہد صدیقی کی ہیں۔اس سرورق سے میرے اندر بسنت بہار کے سارے رنگ بھر گئے۔ دل چاہتا ہے کہ ریس کورس میں لگا میلہ بھی جا کر دیکھیں۔ مگر آہ ایک دل دہلا دینے والی خبر نے بہت پریشان کر دیا کہ ہمارے ایک لیکچرار آفتاب احمد بسنت کا شکار ہو گئے ایک دھاتی ڈور ان کے گلے پر اس وقت پھری جب وہ موٹر سائیکل پر اپنی ڈیوٹی ادا کرنے دیال سنگھ کالج جا رہے تھے: ابھی بہار کا نشہ لہو میں رقصاں تھا کف خزاں نے ہر اک شے کے ہاتھ پیلے کیے یہ ظالم بسنت کئی جگر ٹکڑے کاٹ چکی ہے۔ شہباز شریف کے ہوتے ہوئے بہت سختی تھی اور شہباز شریف نے اس حوالے سے کسی دبائو کو قبول نہیں کیا۔ مجھے زندگی بھر ایک بچہ کبھی نہیں بھولے گا جو اپنے باپ کے ساتھ موٹر سائیکل پر خاموش ہو گیا۔ باپ سمجھا کہ وہ سو گیا ہے مگر ایک ڈور اپنا کام کر چکی تھی۔ بچے کا گلہ کٹ چکا تھا۔ ہائے ہائے اللہ ایسے امتحان سے سب کو بچائے خدا کے لئے حکومت سے اس حوالے میں ضرور تعاون کریں کہ اپنے بچوں کو روکیں۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے اور اسے پولیس پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ آپ بہار کو ضرور انجوائے کریں۔ باغوں میں جائیں مگر قاتل بسنت کو گلے سے مت لگائیں۔ اس بات کو چھوڑ دیں کہ یہ تہوار کس کا ہے یہاں زندگی کا مسئلہ ہے: مسکراتے ہوئے اسے دیکھا باور آیا کہ زندگی کیا ہے