علم کے بغیر انسان اللہ کو نہیں پہچان سکتا۔اللہ نے ہمیں سوچنے کے لیے دماغ ،دیکھنے کے لیے آنکھیں عطا کیں ۔کامیابی اور ناکامی کے اصول مقرر فرمائے ۔اس کے باوجود ہم غور و فکر نہیں کرتے۔ہمارے اندرہمہ وقت معجزے کی تمنا انگڑائی لیتی رہتی ہے۔کرکٹ میچز سے لیکراقتدار کی تبدیلی تک۔ہر کوئی کرامت کے انتظار میں ہوتا ہے ۔ سیاسی منظرنامہ بڑی حد تک واضح ہو چکا ہے۔ اگر پی ٹی آئی حکومت مدت پوری کرتی ،تو بہتر تھا تاکہ پانچ برس بعد وہ کارکردگی کی بنا پر عوام کا سامنا کرتی ۔اس وقت وہ مظلوم بن چکی ہے۔ اسی بنا پرخیبر پی کے کے بلدیاتی الیکشن میں عوام نے عمران خاں کی توقعات سے بڑھ کر اسے پزیرائی بخشی۔ساڈھے تین برس کا اگر 35برسوں کے ساتھ موازہ کیا جائے تو بھی تصویر واضح ہے۔ بشرطیکہ تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نظم و نسق بہتر کیا جا سکتا تھا۔ پولیس‘ عدالت‘ ایف بی آر سمیت دوسرے سرکاری دفاتر کی بہتری کی کوشش ہو سکتی تھی۔ درحقیقت کوئی اہتمام اور تیاری سرے سے ہی نہیں تھی۔بنیادی طور پرٹیم بنانے میں غلطیاں ہوئیں۔ اقتدار میں آنے کے باوجود، تمام رکاوٹیں اور مشکلات بدستور ویسی کی ویسی رہیں۔ معاشی ترقی میں سب سے اہم کردار نوکر شاہی کا ہوتاہے۔ چاہے تو بڑھا دے۔ چاہے تو بساط ہی لپیٹ کے رکھ دے۔ذخیرہ اندوزی سے لیکر مہنگائی بڑھانے تک ۔ہر کوئی آزاد تھا۔بیوروکریسی ٹھنڈے کمروں سے باہر ہی نہیں نکلتی تھی۔سرے سے قانون موجود ہی نہیں کہ تباہی برپا کرنے والوں کو جرمانے عائد کیے جائیں؟ ان کی تنخواہوں سے رقم کاٹ کر برباد ہونے والوں کی دست گیری ہو؟ لازماً ایسا کوئی ضابطہ تشکیل دینا چاہئے۔کچھ نہ کچھ سزا تو ایسے افسروں کو ملنی چاہئے، جو بے حسی کے مرتکب پائے جائیں۔عمران خاں سے غلطیاں ہوئیں۔کس کس جگہ پر خامیاں ہیں ۔انھیںوقت ِفرصت اس پر غور کرنا چاہیے۔شاید کچھ احساس جنم لے۔ شاید انہیں ادراک ہو کہ چولہے جب بجھ جاتے ہیں تو دلوں پر کیا گزرتی ہے، گھروں پہ کیا بیتتی ہے۔دنیا کا ایک اصول ہے ۔ جب آپ عروج پر ہوتے ہیں تو آپ کے دوستوں کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کون ہیں اور جب آپ زوال پر ہوتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ دوست کون ہیں ۔تنہائی کے لمحات میں عمران خاں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔شاید مستقبل میں وہ اس سے کوئی سبق سیکھ سکیں ۔ درحقیقت ماضی کی حکومتوں کی روش برقرار رہی ،جس بنا پرکرپشن کا خاتمہ محض ایک خواب رہا۔ اب بھی وہی لوگ اقتدار سنبھالنے کی تگ ودو میں مگن ہیں، معاشی طور پر ملکی تباہی کے جو ذمہ دار ہیں۔یہ سب کچھ دانستہ ہوا یا نا دانستہ، شعوری یا لا شعوری طور پر، سازش کسی فرد یا گروہ نہیں، ملک اور ریاست کے خلاف ہوئی ہے۔ ہچکولے کھاتی اور ڈوبتی معیشت ایسے تماشے کی متحمل کیونکر ہو سکتی ہے؟ قومی سلامتی، ملکی معیشت سے نتھی ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسئلہ حل کیوں نہیں کیا جاتا۔ رکاوٹ دور کیوں نہیں کر دی جاتی؟ زندگی مشکلات اور مصائب کا نام ہے۔ ان سے لڑنے کا، ہتھیار ڈالنے کا نہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ قوم بحران سے دو چار ہے۔ دلدل میں گھری ہوئی۔ ہر کوئی دکھی ہے۔ ملک کو دلدل سے نکالنے کا آرزو مند ہے۔ مگرسننے والا کوئی نہیں ۔بادشاہت کا دور لدگیا۔ جب ایک قہرمان‘ چند مشیروں کے ساتھ استحکام اور قرار پیدا کر دیا کرتا۔اب سیاسی پارٹیاں ‘ کاروباری طبقات‘ مذہبی مکاتب فکر موجود ہیں ۔سب سے طاقتور سوشل میڈیا ہے۔آپ کسی کی آواز کو بند نہیں کر سکتے۔ اس لیے ڈئیلاگ کا راستہ اپنایا جائے۔محاذآرائی اور ہمہ جہت محاذ آرائی۔ہیجان ہے اور چار سوپھیلتا ہیجان۔ سب سے بڑاالمیہ۔ ابھی تک ، بڑے ملکی بحران پر بحث کی ابتدا تک نہیں ہوئی۔ سیاستدانوں کو ملک وقوم کے حال پر رحم کرنا چاہیے۔تحریک انصاف کے ساڈھے تین سالہ دور اقتدار میں عوام کے ساتھ جو ہوا سو ہوا ۔لیکن اس وقت عوام مہنگائی کو بھول چکے ہیں ۔ عوام کی نظروں میںمہنگائی سے زیادہ ملکی سلامتی اہم ۔ اگر ہم اپنا محاسبہ کریں تو معاشرے میں کرپشن جیسا موذی مرض وسیع پیمانے میں دیکھنے کو ملے گا،ہر شعبہ ہائے زندگی میں یہ ظلم ہوتا دکھائی دے گا۔ ہر فرد خود کی ذات میں پاک صاف، دوسرا فرد کرپٹ ۔درحقیقت جب تک معاشرے میں رہنے والا ہر فرد اپنا محاسبہ کرے، نہ ہی اصلاح۔ تب تک معاشرہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا۔ظلم کے خلاف نہ بولنا اور سچائی کا سامنا نہ کرنا بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔وہ لوگ جنہوں نے اس مشکل میں مصلحت کی چادر اوڑھ رکھی ہے،انھیں اپنے وجود کا احساس دلوانا چاہیے۔لبوں کو جنبش اور جسم کو حرکت دینی چاہیے۔ملک میں سیاسی افراتفری عروج پر۔ بیروزگاری بھی پورے خطے میں آج بھی سب سے زیادہ ۔ پاکستانی قیادت سے ماضی میں بہت غلطیاں ہوئیں۔ ان کا ازالہ دوسروں پر الزام لگانا نہیں بلکہ اپنی غلطی تسلیم کرنا ہے تاکہ آئندہ اس سے سبق سیکھا جا سکے۔ نیب کی کارکردگی کو مزید فعال اور موثر بنانے کیلئے چند اقدامات کی ضرورت ہے۔ نیب سے منسلک افرادکی اعلیٰ تربیت کا اہتمام، عملے کی تنخواہوں اور کارکردگی کی بنیاد پر انہیں خصوصی انعام دیا جائے۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے رقوم کی ادائیگی کے نظام کو دستاویزی بنایا جائے۔جن ممالک میں کرپشن کم ہے اس کا راز یہی ہے۔ وہاں عدالتیں آزاد، قانون کسی کے گھر کی لونڈی نہیں۔ سب کیلئے برابر ہے۔ وہاں صدر اور وزیراعظم کوبھی جرم ثابت ہونے پرجیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں جیلوں کی بجائے، ہسپتالوں میں چلے جاتے ہیں۔وہاں سے ضمانت لیکر قومی سلامتی کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ دونوں بڑی پارٹیوں کے سربراہان کرپشن، منی لانڈرنگ پر ضمانت ہیں۔ایف اے ٹی ایف میں کیا منہ دکھائیں گے۔