موجودہ سیاسی صورت حال اتنی پریشان کن اور گھمبیر ہو چکی ہے کہ اس پر کچھ لکھنے کو بھی دل نہیں کر رہا،ایک طرف عمران خان کا بیانیہ اور نئے انتخابات کی ضد اور دوسری جانب اتحادی جماعتوں کا تکبر،عوام جائیں بھی تو کس طرف۔وہ کہانی جو اپریل میں الجھائی گئی تھی‘اس کا سرا ابھی تک کسی کے ہاتھ نہیں لگ رہا ،افتخار عارف نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال پر کہا تھا ’کہانی آپ الجھی ہے یا الجھائی گئی ہے‘۔کہانی الجھانے والے بھی واقف نہیں تھے کہ ایک وقت ایسا آجائے گا کہانی مزید گنجلک ہو جائے گی اور اس کا خمیازہ میرے ملک کے غریب عوام کو بھگتنا پڑے گا۔کمر توڑ مہنگائی کا الزام پی ڈی ایم کو دیں یا تحریک انصاف کو،عوام تو یہ فیصلہ کرنے سے بھی قاصر ہیں کیونکہ حکومتی اتحاد (جو منصوبہ بندی کے تحت کروایا گیا)مہنگائی اور معاشی تباہی کا الزام گزشتہ جمہوری حکومت کو دے رہا ہے جبکہ گزشتہ جمہوری حکومت جسے بیرونی سازش کے تحت گھر بھیجا گیا‘وہ موردِ الزام پی ڈی ایم اور ان کے سہولت کاروں کو دے رہے ہیں۔عمران خان کا جنرل باجوہ مخالف بیانیہ اپنی جگہ اہم اور حیرت ناک سہی مگر کیا اس کے بعد ہم یہ بھول جائیں کہ تحریک انصاف سے بھی معیشت نہیں سنبھالی گئی؟میں ذاتی طور پر پی ڈی ایم کو مہنگائی کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا کیوں کہ مذکورہ تیرہ جماعتوں کو برسرِ اقتدار لانے کا مقصد کم از کم معیشت کی بحالی تونہیں تھا‘پی ڈی ایم کا اتحاد دراصل چند مخصوص افراد کو نوازنا تھا تاکہ ان کے لیے جنرل الیکشن میں مسائل نہ ہوں‘اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ اپریل میں جیسی ایک جمہوری حکومت پر شب خون مارا گیا‘اس کا بنیادی مقصد نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے کیسز ختم کروانا‘منجمد اثاثوں کی بحالی اور نیب قوانین میں ترمیم کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھا۔ افسوس تو یہ ہے کہ موجودہ ’برانڈڈ حکومت ‘کے سہولت کاروں نے محض چند افراد کے لیے پورا ملک دائو پر لگا دیا‘مہنگائی اور معیشت کے ساتھ عالمی منڈیوں میں بھی پاکستان کا اثرورسوخ تباہ کر دیا اور اس سب کے باوجود جب یہ سہولت کار میڈیا پر گردن اکڑا کر کہتے ہیں کہ ’ساڈا ملک ساڈی مرضی‘تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہم تو ان سے یہ بھی سوال نہیں کر سکتے کہ جناب عالی!آپ سب تو کسی وقت بھی دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں منتقل ہو سکتے ہیں‘یہ غریب کہاں جائے گا جن کے پاس رکشے کا کرایہ بھی نہیں‘جس غریب کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں‘اس کا کیا قصور ہے کہ وہ آپ کی الجھائی ہوئی کہانی کا سرا تلاش کرے۔ہم کچھ دیر کے لیے مان بھی لیں کہ ’تہاڈا ملک تہاڈی مرضی‘تو پھر ہمیں بتایا جائے کہ ہم کس ملک بسیرا کریں؟کیا موجودہ کابینہ یا وزارت عظمیٰ پر براجمان ’قومی ہیرو‘اس سوال کا جواب دینا گوارا کریں گے کہ اگر ساری مہنگائی اور مسائل گزشتہ حکومت کے پیدا کردہ ہیں تو آپ کس لیے جمہوری اقتدار پر حملہ آور ہوئے تھے؟جب آپ اس بات سے واقف تھے کہ ملکی حالات ابتر ہیں تو عمران خان کی حکومت کو چلنے دیا جاتا تاکہ وہ پوری طرح ایکسپوز ہو سکتا۔اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اصل مقصد اقتدار کا حصول نہیں بلکہ اپنے راستے صاف کرنا تھا تاکہ جنرل انتخابات سے بیشتر یہ دونوں خاندان ’پاک پوتر‘ہو جائیں اور ایساہی ہوا۔پاکستان تقریباً ڈیفالٹ ہو چکا‘قومی خزانہ خالی ہے مگر77 لوگوں کی کابینہ خوابِ استراحت میں ہے‘ان سے پروٹوکول سے فرصت ملے تو عوام کا سوچیں۔ ایک طرف وفاق کی ’سیاسی کسمپرسی‘اور دوسری طرف پنجاب کا سیاسی بحران،تحریک انصاف کے تین ممبرز پرویز الٰہی کو ووٹ دینے کو تیار نہیں۔اس میں مخصوص سیٹ پر منتخب ہونے والی ایک ایم پی اے بھی ہے جس کے پاس نہ کوئی سیاسی نظریہ ہے اور نہ سیاسی جدوجہد، سفارش پر منتخب ہونے والے آج پارٹی سے منحرف ہو رہے ہیں یعنی ساڑھے تین سال حکومت انجوائے کرنے کے بعد ان اراکین کو تحریک انصاف سے بغاوت یاد آئی،اس کی وجہ شاید نئی پارٹی میں شمولیت ہے یا اندر کھاتے کچھ اور،مگر ایسے کرداروں نے ہی پارٹی کو اس نہج پر پہنچایا۔تحریک انصاف نے گزشتہ تقرریاں میرٹ پر کی ہوتیں تو ایسے دھچکے نہ لگتے ‘سیاسی تقرری تھی یا ٹکٹوں کی تقسیم،ہر معاملے میں عمرانی حکومت تنقیدکا نشانہ بنی۔میرا ذاتی مشورہ ہے کہ تحریک انصاف ان منحرف اراکین کے ساتھ سختی سے نمٹے تاکہ آئندہ کے لیے ایسی حرکت کوئی نہ کرے۔جب آپ کسی پارٹی کے ٹکٹ پر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں تو یہ سیٹیں اور عہدے پارٹی کی امانت ہوتے ہیں‘ورنہ کون نہیں جانتا کہ کسے ٹکٹ کس کے کہنے پر ملا اور مخصوص سیٹوں تک کوئی کیسے پہنچا۔ ایک طرف حکومتی بحران،مہنگائی اور معیشت کی خستہ حالی،دوسری طرف پاکستان کا ویڈیو ڈیپارٹمنٹ بھی دن رات خدمت میں مصروف ہے، آئے روز کسی نہ کسی سیاسی وڈیرے اور جاگیردار کی ویڈیو اور آڈیو لیک ہو رہی ہے ،ایسا کیوںہوا؟یہ بحث ہی نہیں کہ ویڈیوز فیک ہیں یا اورجنل،سوال تو یہ ہے کہ یہ سب کون کر رہا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟کیا ہمارے سکیورٹی ادارے ایسے افراد تک نہیں پہنچ سکتے جو آرٹیفشل انٹیلی جینس کے ذریعے ملک کو انتہائی تکلیف دل اور شرمناک صورت حال سے دو چار کر رہے ہیں۔پہلے یہ سب سیاسی لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے اور اب ملک کے اہم ترین ادارے اور انتہائی حساس سیٹوں پر بیٹھے لوگ بھی اس کی زد میں آ گئے،ویڈیو یا آڈیو کال کسی کی بھی ہو،یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے جسے کسی بھی صورت پبلک نہیں کیا جانا چاہیے،ہمارے سکیورٹی اداروں کو ایسے تمام جرائم پیشہ افراد کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہوگا جو یہ سب کر رہے ہیں‘اسی میں ہماری سلامتی ہے ورنہ اس حمام میں۔۔۔۔۔ اظہارِ تعزیت:ابھی کالم لکھتے ہوئے اطلاع ملی کہ اردو کے بہترین شاعر اور حلقہ ارتقائے ادب کے روحِ رواں ریاض اختر رومانی انتقال فرما گئے ہیں،دلی دکھ ہوا۔ریاض رومانی قلم کار بھی اچھے تھے اور انسان بھی،آپ نے ایک عرصہ لاہور میں شعروادب کا چراغ جلائے رکھا۔لاہور کا ادبی منظر نامہ آپ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوگا‘آپ نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کو متعارف کروایا‘ان کو اپنا پلیٹ فارم مہیا کیا اور خود سے بڑھ کر قلم کاروں کو عزت و احترام دیا۔حق تعالیٰ ان کی اگلی منازل آسان فرمائے۔آمین۔